سورة ق - آیت 1

ق ۚ وَالْقُرْآنِ الْمَجِيدِ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

ق ٓ(١) قسم ہے قرآن کی جو عالی مرتبت عظیم المنافع ہے

ابن کثیر - حافظ عماد الدین ابوالفداء ابن کثیر صاحب

تفسیر سورۂ ق «ق» حروف ہجا سے ہے جو سورتوں کے اول میں آتے ہیں جیسے «ص ، ن ، الم ، حم ، طس» ، وغیرہ ہم نے ان کی پوری تشریح سورۃ البقرہ کی تفسیر میں شروع میں کر دی ہے ۔ بعض سلف کا قول ہے کہ قاف ایک پہاڑ ہے زمین کو گھیرے ہوئے ہے ، میں تو جانتا ہوں کہ دراصل یہ بنی اسرائیل کی خرافات میں سے ہے جنہیں بعض لوگوں نے لے لیا ۔ یہ سمجھ کر کہ یہ روایت لینا مباح ہے گو تصدیق تکذیب نہیں کر سکتے ۔ اہل کتاب کی موضوع روایتیں لیکن میرا خیال ہے کہ یہ اور اس جیسی اور روایتیں تو بنی اسرائیل کے بددینوں نے گھڑ لی ہوں گی تاکہ لوگوں پر دین کو خلط ملط کر دیں ، آپ خیال کیجئے کہ اس امت میں باوجود یہ کہ علماء کرام اور حافظان عظام کی بہت بڑی دیندار مخلص جماعت ہر زمانے میں موجود ہے تاہم بددینوں نے بہت تھوڑی مدت میں موضوع احادیث تک گھڑ لیں ۔ پس بنی اسرائیل جن پر مدتیں گزر چکیں ، جو حفظ سے عاری تھے ، جن میں نقادان فن موجود نہ تھے ، جو کلام اللہ کو اصلیت سے ہٹا دیا کرتے تھے ، جو شرابوں میں مخمور رہا کرتے تھے ، جو آیات اللہ کو بدل ڈالا کرتے تھے ، ان کا کیا ٹھیک ہے ؟ پس حدیث نے جن روایات کو ان سے لینا مباح رکھا ہے یہ وہ ہیں جو کم از کم عقل و فہم میں تو آ سکیں ، نہ وہ جو صریح خلاف عقل ہوں ، سنتے ہی ان کے باطل اور غلط ہونے کا فیصلہ عقل کر دیتی ہو اور اس کا جھوٹ ہونا اتنا واضح ہو کہ اس پر دلیل لانے کی ضرورت نہ پڑے ۔ پس مندرجہ بالا روایات بھی ایسی ہی ہے «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ افسوس کہ بہت سلف و خلف نے اہل کتاب سے اس قسم کی حکایتیں قرآن مجید کی تفسیر میں وارد کر دی ہیں دراصل قرآن کریم ایسی بےسروپا باتوں کا کچھ محتاج نہیں ۔ «فالْحَمْدُ لِلّٰہ» یہاں تک کہ امام ابو محمد عبدالرحمٰن بن ابوحاتم رازی رحمہ اللہ نے بھی یہاں ایک عجیب و غریب اثر بروایت سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما وارد کر دیا ہے جو ازروے سند ثابت نہیں ۔ اس میں ہے کہ { اللہ تبارک و تعالیٰ نے ایک سمندر پیدا کیا ہے جو اس ساری زمین کو گھیرے ہوئے ہے اور اس سمندر کے پچھے ایک پہاڑ ہے جو اس کو روکے ہوئے ہے اس کا نام قاف ہے ، آسمان اور دنیا اسی پر اٹھا ہوا ہے ، پھر اللہ تعالیٰ نے اس پہاڑ کے پیچھے ایک زمین بنائی ہے جو اس زمین سے سات گنا بڑی ہے ، پھر اس کے پیچھے ایک سمندر ہے جو اسے گھیرے ہوئے ہے ، پھر اس کے پیچھے پہاڑ ہے جو اسے گھیرے ہوئے ہے اسے بھی قاف کہتے ہیں دوسرا آسمان اسی پر بلند کیا ہوا ہے اسی طرح سات زمینیں ، سات سمندر ، سات پہاڑ اور سات آسمان گنوائے ۔ پھر یہ آیت پڑھی «وَّالْبَحْرُ یَمُدٰہٗ مِنْ بَعْدِہٖ سَبْعَۃُ اَبْحُرٍ مَّا نَفِدَتْ کَلِمٰتُ اللّٰہِ اِنَّ اللّٰہَ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ» ۱؎ (31-لقمان:27) } اس اثر کی اسناد میں انقطاع ہے ۔ ۱؎ (ضعیف و منقطع) علی بن ابوطلحہ جو روایت سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کرتے ہیں اس میں ہے کہ «ق» اللہ کے ناموں میں سے ایک نام ہے مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں «ق» بھی مثل «ص ، ن ، طس ، الم» وغیرہ کے حروف ہجا میں سے ہے ۔ پس ان روایات سے بھی سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا یہ فرمان ہونا اور بعید ہو جاتا ہے یہ بھی کہا گیا ہے کہ مراد اس سے یہ ہے کہ کام کا فیصلہ کر دیا گیا ہے قسم اللہ کی اور «ق» کہہ کر باقی جملہ چھوڑ دیا گیا کہ یہ دلیل ہے محذوف پر ۔ جیسے شاعر کہتا ہے ۔ «قلت لھا قفی فقالت ق» لیکن یہ کہنا بھی ٹھیک نہیں ۔ اس لیے کہ محذوف پر دلالت کرنے والا کلام صاف ہونا چاہیئے اور یہاں کون سا کلام ہے ؟ جس سے اتنے بڑے جملے کے محذوف ہونے کا پتہ چلے ۔ پھر اس کرم اور عظمت والے قرآن کی قسم کھائی جس کے آگے سے یا پیچھے سے باطل نہیں آ سکتا ، جو حکمتوں اور تعریفوں والے اللہ کی طرف سے نازل ہوا ہے ۔ اس قسم کا جواب کیا ہے ؟ اس میں بھی کئی قول ہیں ۔ امام ابن جریر رحمہ اللہ نے تو بعض نحویوں سے نقل کیا ہے کہ اس کا جواب «قَدْ عَلِمْنَا مَا تَنقُصُ الْأَرْضُ مِنْہُمْ وَعِندَنَا کِتَابٌ حَفِیظٌ» ۱؎ (50-ق:4) پوری آیت تک ہے ۔ لیکن یہ بھی غور طلب ہے بلکہ جواب قسم کے بعد کا مضمون کلام ہے یعنی نبوت اور دوبارہ جی اٹھنے کا ثبوت اور تحقیق گو قسم لفظوں سے اس کا جواب نہ بتاتی ہو ایسا قرآن کی قسموں کے جواب میں اکثر ہے جیسے کہ سورۃ ص کی تفسیر کے شروع میں گزر چکا ہے ، اسی طرح یہاں بھی ہے ۔ پھر فرماتا ہے کہ انہوں نے اس بات پر تعجب ظاہر کیا ہے کہ انہی میں سے ایک انسان کیسے رسول بن گیا ؟ جیسے اور آیت میں ہے «اَکَان للنَّاسِ عَجَبًا اَنْ اَوْحَیْنَآ اِلٰی رَجُلٍ مِّنْھُمْ اَنْ اَنْذِرِ النَّاسَ وَبَشِّرِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَنَّ لَھُمْ قَدَمَ صِدْقٍ عِنْدَ رَبِّہِمْ قَالَ الْکٰفِرُوْنَ اِنَّ ھٰذَا لَسٰحِرٌ مٰبِیْنٌ» ۱؎ (10-یونس:2) یعنی ’ کیا لوگوں کو اس بات پر تعجب ہوا کہ ہم نے انہی میں سے ایک شخص کی طرف وحی بھیجی تاکہ تم لوگوں کو خبردار کر دے ۔ ‘ یعنی دراصل یہ کوئی تعجب کی چیز نہ تھی اللہ جسے چاہے اپنے فرشتوں میں سے اپنی رسالت کے لیے چن لیتا ہے اور جسے چاہے انسانوں میں سے چن لیتا ہے ۔ اسی کے ساتھ یہ بھی بیان ہو رہا ہے کہ انہوں نے مرنے کے بعد جینے کو بھی تعجب کی نگاہوں سے دیکھا اور کہا کہ جب ہم مر جائیں گے اور ہمارے جسم کے اجزا جدا جدا ہو کر ، ریزہ ریزہ ہو کر ، مٹی ہو جائیں گے اس کے بعد تو اسی ہئیت و ترکیب میں ہمارا دوبارہ جینا بالکل محال ہے اس کے جواب میں فرمان صادر ہوا کہ زمین ان کے جسموں کو جو کھا جاتی ہے اس سے بھی ہم غافل نہیں ہمیں معلوم ہے کہ ان کے ذرے کہاں گئے اور کس حالت میں کہاں ہیں ؟ ہمارے پاس کتاب ہے جو اس کی حافظ ہے ہمارا علم ان سب معلومات پر مشتمل ہے اور ساتھ ہی کتاب میں محفوظ ہے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں یعنی ان کے گوشت ، چمڑے ، ہڈیاں اور بال جو کچھ زمین کھا جاتی ہے ، ہمارے علم میں ہے ۔ پھر پروردگار عالم ان کے اس محال سمجھنے کی اصل وجہ بیان فرما رہا ہے کہ دراصل یہ حق کو جھٹلانے والے لوگ ہیں اور جو لوگ اپنے پاس حق کے آ جانے کے بعد اس کا انکار کر دیں ان سے اچھی سمجھ ہی چھن جاتی ہے ، «مریج» کے معنی ہیں مختلف ، مضطرب ، منکر اور خلط ملط کے جیسے فرمان ہے «اِنَّکُمْ لَفِیْ قَوْلٍ مٰخْتَلِفٍ» ۱؎ (51-الذاریات:8) یعنی ’ یقیناً تم ایک جھگڑے کی بات میں پڑے ہوئے ہو ۔ ‘ نافرمانی وہی کرتا ہے جو بھلائی سے محروم کر دیا گیا ہے ۔