قُلْ أَتُعَلِّمُونَ اللَّهَ بِدِينِكُمْ وَاللَّهُ يَعْلَمُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ ۚ وَاللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ
اے میرے نبی ! آپ ان سے کہئے، کیا تم اللہ کو اپنے دین کی خبر دیتے ہو، حالانکہ اللہ تو ان تمام چیزوں کو جانتا ہے جو آسمانوں اور زمین میں ہیں، اور اللہ ہر چیز سے باخبر ہے
1 پھر فرماتا ہے کہ کیا تم اپنے دل کا یقین و دین اللہ کو دکھاتے ہو ؟ وہ تو ایسا ہے کہ زمین و آسمان کا کوئی ذرہ اس سے مخفی نہیں ، وہ ہر چیز کا جاننے والا ہے ۔ پھر فرمایا جو اعراب اپنے اسلام لانے کا بار احسان تجھ پر رکھتے ہیں ان سے کہہ دو کہ مجھ پر اسلام لانے کا احسان نہ جتاؤ تم اگر اسلام قبول کرو گے میری فرماں برداری کرو گے میری مدد کرو گے تو اس کا نفع تمہیں کو ملے گا ۔ بلکہ دراصل ایمان کی دولت تمہیں دینا یہ اللہ ہی کا احسان ہے اگر تم اپنے دعوے میں سچے ہو ۔ [ اب غور فرمائیے کہ کیا اسلام لانے کا احسان پیغمبر اللہ پر جتانے والے سچے مسلمان تھے ؟ ] پس آیات کی ترتیب سے ظاہر ہے کہ ان کا اسلام حقیقت پر مبنی نہ تھا اور یہی الفاظ بھی ہیں کہ ایمان اب تک ان کے ذہن نشین نہیں ہوا اور جب تک اسلام حقیقت پر مبنی نہ ہو تب تک بیشک وہ ایمان نہیں لیکن جب وہ اپنی حقیقت پر صحیح معنی میں ہو تو پھر ایمان اسلام ایک ہی چیز ہے ۔ خود اس آیت کے الفاظ میں غور فرمائیے ارشاد ہے ’ اپنے اسلام کا احسان تجھ پر رکھتے ہیں حالانکہ دراصل ایمان کی ہدایت اللہ کا خود ان پر احسان ہے ‘ ۔ پس وہاں احسان اسلام رکھنے کو بیان کر کے اپنا احسان ہدایت ایمان جتانا بھی ایمان و اسلام کے ایک ہونے پر باریک اشارہ ہے ۔ [ مزید دلائل صحیح بخاری شریف وغیرہ ملاحظہ ہوں ۔ مترجم ] پس اللہ تعالیٰ کا کسی کو ایمان کی راہ دکھانا اس پر احسان کرنا ہے جیسے کہ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حنین والے دن انصار سے فرمایا تھا : ” میں نے تمہیں گمراہی کی حالت میں نہیں پایا تھا ؟ پھر اللہ تعالیٰ نے تم میں اتفاق دیا تم مفلس تھے میری وجہ سے اللہ نے تمہیں مالدار کیا “ ۔ جب کبھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کچھ فرماتے وہ کہتے : ” بیشک اللہ اور اس کے رسول اس سے بھی زیادہ احسانوں والے ہیں “ } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4330) مسند بزار میں ہے کہ { بنو اسد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہنے لگے ، یا رسول اللہ ! ہم مسلمان ہوئے عرب آپ سے لڑتے رہے لیکن ہم آپ سے نہیں لڑے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” ان میں سمجھ بہت کم ہے ، شیطان ان کی زبانوں پر بول رہا ہے “ اور یہ آیت «یَمُنٰوْنَ عَلَیْکَ اَنْ اَسْلَمُوْا ۭ قُلْ لَّا تَمُنٰوْا عَلَیَّ اِسْلَامَکُمْ بَلِ اللّٰہُ یَمُنٰ عَلَیْکُمْ اَنْ ہَدٰیکُمْ لِلْاِیْمَانِ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ» ۱؎ (49-الحجرات:17) ، نازل ہوئی } ۔ پھر دوبارہ اللہ رب العزت نے اپنے وسیع علم اور اپنی سچی باخبری اور مخلوق کے اعمال سے آگاہی کو بیان فرمایا کہ ’ آسمان و زمین کے غیب اس پر ظاہر ہیں اور وہ تمہارے اعمال سے آگاہ ہے ‘ ۔ «اَلْحَمْدُ لِلہِ» سورۃ الحجرات کی تفسیر ختم ہوئی اللہ کا شکر ہے ۔ توفیق اور ہمت اسی کے ہاتھ ہے ۔