وَإِن طَائِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ اقْتَتَلُوا فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا ۖ فَإِن بَغَتْ إِحْدَاهُمَا عَلَى الْأُخْرَىٰ فَقَاتِلُوا الَّتِي تَبْغِي حَتَّىٰ تَفِيءَ إِلَىٰ أَمْرِ اللَّهِ ۚ فَإِن فَاءَتْ فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا بِالْعَدْلِ وَأَقْسِطُوا ۖ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ
اور اگر مومنوں کے دو گروہ (٧) آپس میں برسر پیکار ہوجائیں، تو تم لوگ ان کے درمیان صلح کرو، پس اگر ان میں کا ایک گروہ دوسرے پر چڑھ دوڑے، تو تم سب مل کر باغی گروہ سے جنگ کرو، یہاں تک کہ وہ اللہ کے فیصلہ کی طرف رجوع کرلے، پس اگر وہ رجوع کرلے، تو تم لوگ دونوں گروہوں کے درمیان عدل و انصاف کے مطابق صلح کرادو، اور انصاف سے کام لو، بے شک اللہ انصاف کرنے والوں سے محبت کرتاہے
دو متحارب مسلمان جماعتوں میں صلح کرانا ہر مسلمان کا فرض ہے یہاں حکم ہو رہا ہے کہ اگر مسلمانوں کی کوئی دو جماعتیں لڑنے لگ جائیں تو دوسرے مسلمانوں کو چاہیئے کہ ان میں صلح کرا دیں ۔ آپس میں لڑنے والی جماعتوں کو مومن کہنا اس سے امام بخاری رحمہ اللہ نے استدلال کیا ہے کہ نافرمانی گو کتنی ہی بڑی ہو وہ انسان کو ایمان سے الگ نہیں کرتی ۔ خارجیوں کا اور ان کے موافق معتزلہ کا مذہب اس بارے میں خلاف حق ہے ۔ اسی آیت کی تائید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے جو صحیح بخاری وغیرہ میں مروی ہے کہ { ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر خطبہ دے رہے تھے آپ کے ساتھ منبر پر سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہ بھی تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی ان کی طرف دیکھتے کبھی لوگوں کی طرف اور فرماتے کہ ” میرا یہ بچہ سید ہے اور اس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ مسلمانوں کی دو بڑی بڑی جماعتوں میں صلح کرا دے گا “ } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:2704) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ پیش گوئی سچی نکلی اور اہل شام اور اہل عراق میں بڑی لمبی لڑائیوں اور بڑے ناپسندیدہ واقعات کے بعد آپ رضی اللہ عنہ کی وجہ سے صلح ہو گئی ۔ پھر ارشاد ہوتا ہے ’ اگر ایک گروہ دوسرے گروہ پر زیادتی کرے تو زیادتی کرنے والے سے لڑائی کی جائے تاکہ وہ پھر ٹھکانے آ جائے حق کو سنے اور مان لے ‘ ۔ صحیح حدیث میں ہے { اپنے بھائی کی مدد کر ظالم ہو تو مظلوم ہو تو بھی ، سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ ” مظلوم ہونے کی حالت میں تو ظاہر ہے لیکن ظالم ہونے کی حالت میں کیسے مدد کروں ؟ “ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اسے ظلم سے باز رکھو یہی اس کی اس وقت یہ مدد ہے “ } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:6952) مسند احمد میں ہے { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک مرتبہ کہا گیا : ” کیا اچھا ہو اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم عبداللہ بن ابی کے ہاں چلئے “ ، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گدھے پر سوار ہوئے اور صحابہ رضی اللہ عنہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہمرکابی میں ساتھ ہو لیئے ، زمین شور تھی ، جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم وہاں پہنچے ، تو یہ کہنے لگا مجھ سے الگ رہیے ، اللہ کی قسم آپ کے گدھے کی بدبو نے میرا دماغ پریشان کر دیا ۔ اس پر ایک انصاری نے کہا : واللہ ! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گدھے کی بو تیری خوشبو سے بہت ہی اچھی ہے اس پر ادھر سے ادھر کچھ لوگ بول پڑے اور معاملہ بڑھنے لگا بلکہ کچھ ہاتھا پائی اور جوتے چھڑیاں بھی کام میں لائی گئیں ان کے بارے میں یہ آیت اتری ہے } ۔ سعید بن جبیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں اوس اور خزرج قبائل میں کچھ چشمک ہو گئی تھی ان میں صلح کرا دینے کا اس آیت میں حکم ہو رہا ہے ۔ سدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں ، عمران نامی ایک انصاری تھے ان کی بیوی صاحبہ کا نام ام زید تھا ، اس نے اپنے میکے جانا چاہا ، خاوند نے روکا اور منع کر دیا کہ میکے کا کوئی شخص یہاں بھی نہ آئے ۔ عورت نے یہ خبر اپنے میکے کہلوا دی وہ لوگ آئے اور اسے بالاخانے سے اتار لائے اور لے جانا چاہا ان کے خاوند گھر پر تھے نہیں ، خاوند والوں نے اس کے چچا زاد بھائیوں کو اطلاع دے کر انہیں بلا لیا ، اب کھینچا تانی ہونے لگی اور ان کے بارے میں یہ آیت اتری ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں طرف کے لوگوں کو بلا کر بیچ میں بیٹھ کر صلح کرا دی اور سب لوگ مل گئے پھر حکم ہوتا ہے ’ دونوں فریقوں میں عدل کرو ، اللہ عادلوں کو پسند فرماتا ہے ‘ ۔ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ” دنیا میں جو عدل و انصاف کرتے رہے وہ موتیوں کے منبروں پر رحمن عزوجل کے سامنے ہوں گے اور یہ بدلہ ہو گا ان کے عدل و انصاف کا “ } ۔ ۱؎ (مسند احمد:159/2:صحیح) صحیح مسلم کی حدیث میں ہے { یہ لوگ ان منبروں پر رحمن عزوجل کے دائیں جانب ہوں گے یہ اپنے فیصلوں میں ، اپنے اہل و عیال میں اور جو کچھ ان کے قبضہ میں ہے اس میں عدل سے کام لیا کرتے تھے ۔ } ۱؎ (صحیح مسلم:18) پھر فرمایا ’ کل مومن دینی بھائی ہیں ‘ ۔ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : ” مسلمان مسلمان کا بھائی ہے اسے اس پر ظلم و ستم نہ کرنا چاہیئے “ } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:2442) صحیح حدیث میں ہے { اللہ تعالیٰ بندے کی مدد کرتا رہتا ہے جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد میں لگا رہے } ۔ اور صحیح حدیث میں ہے { جب کوئی مسلمان اپنے غیر حاضر بھائی مسلمان کے لیے اس کی پس پشت دعا کرتا ہے تو فرشتہ کہتا ہے آمین ۔ اور تجھے بھی اللہ ایسا ہی دے } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:87) اس بارے میں اور بھی بہت سی حدیثیں ہیں صحیح حدیث میں ہے { مسلمان سارے کے سارے اپنی محبت رحم دلی اور میل جول میں مثل ایک جسم کے ہیں جب کسی عضو کو تکلیف ہو تو سارا جسم تڑپ اٹھتا ہے کبھی بخار چڑھ آتا ہے کبھی شب بیداری کی تکلیف ہوتی ہے } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:6011) ایک اور حدیث میں ہے { مومن مومن کے لیے مثل دیوار کے ہے ، جس کا ایک حصہ دوسرے حصے کو تقویت پہنچاتا اور مضبوط کرتا ہے ، پھر آپ نے اپنی ایک ہاتھ کی انگلیاں دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں ڈال کر بتایا } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:2446) مسند احمد میں ہے { مومن کا تعلق اور اہل ایمان سے ایسا ہے جیسے سر کا تعلق جسم سے ہے ، مومن اہل ایمان کے لیے وہی درد مندی کرتا ہے جو درد مندی جسم کو سر کے ساتھ ہے } ۔ ۱؎ (مسند احمد:340/5:صحیح لغیرہ و ھذا اسناد ضعیف) پھر فرماتا ہے دونوں لڑنے والی جماعتوں اور دونوں طرف کے اسلامی بھائیوں میں صلح کرا دو اپنے تمام کاموں میں اللہ کا ڈر رکھو ۔ یہی وہ اوصاف ہیں جن کی وجہ سے اللہ کی رحمت تم پر نازل ہو گی پرہیزگاروں کے ساتھ ہی رب کا رحم رہتا ہے ۔