لَّقَدْ صَدَقَ اللَّهُ رَسُولَهُ الرُّؤْيَا بِالْحَقِّ ۖ لَتَدْخُلُنَّ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ إِن شَاءَ اللَّهُ آمِنِينَ مُحَلِّقِينَ رُءُوسَكُمْ وَمُقَصِّرِينَ لَا تَخَافُونَ ۖ فَعَلِمَ مَا لَمْ تَعْلَمُوا فَجَعَلَ مِن دُونِ ذَٰلِكَ فَتْحًا قَرِيبًا
اللہ نے اپنے رسول کا برحق خواب (١٨) سچ کردکھایا، اگر اللہ نے چاہا تو تم یقیناً مسجد حرام میں داخل ہوگے، درانحالیکہ تم امن میں ہوگے، اپنے سروں کے بال منڈائے یا کٹائے ہوگے، تم خوف زدہ نہیں ہوگے، پس اسے وہ معلوم تھا جو تم نہیں جانتے تھے، چنانچہ اس نے اس سے پہلے تمہیں ایک قریب کی فتح عطا کی
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خواب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خواب دیکھا تھا کہ آپ مکہ میں گئے اور بیت اللہ شریف کا طواف کیا ، آپ نے اس کا ذکر اپنے اصحاب رضی اللہ عنہم سے مدینہ شریف میں ہی کر دیا تھا ۔ حدیبیہ والے سال جب آپ عمرے کے ارادے سے چلے تو اس خواب کی بنا پر صحابہ کو یقین کامل تھا کہ اس سفر میں ہی کامیابی کے ساتھ اس خواب کا ظہور دیکھ لیں گے ۔ وہاں جا کر جو رنگت بدلی ہوئی دیکھی یہاں تک کہ صلح نامہ لکھ کر بغیر زیارت بیت اللہ واپس ہونا پڑا تو ان صحابہ رضی اللہ عنہم پر نہایت شاق گزرا ۔ چنانچہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے تو خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ کہا بھی کہ آپ نے تو ہم سے فرمایا تھا کہ ہم بیت اللہ جائیں گے اور طواف سے مشرف ہوں گے ، آپ نے فرمایا : ” یہ صحیح ہے لیکن یہ تو میں نے نہیں کہا تھا کہ اسی سال ہو گا ؟ “ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ہاں یہ تو نہیں فرمایا تھا ، آپ نے فرمایا : ” پھر جلدی کیا ہے ؟ تم بیت اللہ میں جاؤ گے ضرور اور طواف بھی یقیناً کرو گے “ ۔ پھر سیدنا صدیق رضی اللہ عنہ سے یہی کہا اور ٹھیک یہی جواب پایا ۔ اس آیت میں جو «ان شاءاللہ» ہے یہ استثناء کے لیے نہیں بلکہ تحقیق اور تاکید کے لیے ہے اس مبارک خواب کی تاویل کو صحابہ رضی اللہ عنہم نے دیکھ لیا اور پورے امن و اطمینان کے ساتھ مکہ میں گئے اور وہاں جا کر احرام کھولتے ہوئے بعض نے اپنا سر منڈوایا اور بعض نے بال کتروائے ۔ صحیح حدیث میں { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ سر منڈوانے والوں پر رحم کرے لوگوں نے کہا اور کتروانے والوں پر بھی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ بھی یہی فرمایا پھر لوگوں نے وہی کہا آخر تیسری یا چوتھی دفعہ میں آپ نے کتروانے والوں کے لیے بھی رحم کی دعا کی ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:1727) پھر فرمایا بےخوف ہو کر یعنی مکہ جاتے وقت بھی امن و امان سے ہوں گے اور مکہ کا قیام بھی بےخوفی کا ہو گا ۔ چنانچہ عمرۃ القضاء میں یہی ہوا یہ عمرہ ذی قعدہ سنہ ۷ ہجری میں ہوا تھا ۔ حدیبیہ سے آپ ذی قعدہ کے مہینے میں لوٹے ، ذی الحجہ اور محرم تو مدینہ شریف میں قیام رہا ، صفر میں خیبر کی طرف گئے اس کا کچھ حصہ تو ازروئے جنگ فتح ہوا اور کچھ حصہ ازروئے صلح مسخر ہوا یہ بہت بڑا علاقہ تھا اس میں کھجوروں کے باغات اور کھیتیاں بکثرت تھیں ۔ یہیں کے یہودیوں کو آپ نے بطور خادم یہاں رکھ کر ان سے یہ معاملہ طے کیا کہ وہ باغوں اور کھیتوں کی حفاظت اور خدمت کریں اور پیداوار کا نصف حصہ دے دیا کریں ، خیبر کی تقسیم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف ان ہی صحابہ رضی اللہ عنہم میں کی جو حدیبیہ میں موجود تھے ان کے سوا کسی اور کو اس جنگ میں آپ نے حصہ دار نہیں بنایا ، سوائے ان لوگوں کے جو حبشہ کی ہجرت سے واپس آئے تھے ، جو حضرات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے وہ سب اس فتح خیبر میں بھی ساتھ تھے ۔ ابودجانہ ، سماک بن خرشہ رحمہا اللہ علیہ کے سوا ، جیسے کہ اس کا پورا بیان اپنی جگہ ہے ۔ یہاں سے آپ سالم و غنیمت لیے ہوئے واپس تشریف لائے اور ماہ ذوالقعدہ سنہ ۷ ہجری میں مکہ کی طرف باارادہ عمرہ اہل حدیبیہ کو ساتھ لے کر آپ روانہ ہوئے ، ذوالحلفیہ سے احرام باندھا قربانی کے لیے ساٹھ اونٹ ساتھ لیے اور لبیک پکارتے ہوئے ظہران کے قریب پہنچ کر سیدنا محمد بن سلمہ رضی اللہ عنہ کو کچھ گھوڑے سواروں کے ساتھ ہتھیار بند آگے آگے روانہ کیا ۔ اس سے مشرکین کے اوسان خطا ہو گئے اور مارے رعب کے ان کے کلیجے اچھلنے لگے ۔ انہیں یہ خیال گزرا کہ یہ تو پوری تیاری اور کامل ساز و سامان کے ساتھ آئے ہیں تو ضرور لڑائی کے ارادے سے آئے ہیں ۔ انہوں نے شرط توڑ دی کہ دس سال تک کوئی لڑائی نہ ہو گی ، چنانچہ یہ لوگ دوڑے ہوئے مکہ میں گئے اور اہلِ مکہ کو اس کی اطلاع دی ۔ َنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب مرالظہران میں پہنچے جہاں سے کعبہ کے بت دکھائی دیتے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام نیزے بھالے تیر کمان بطن یاجج میں بھیج دئیے ، مطابق شرط کے صرف تلواریں پاس رکھ لیں اور وہ بھی میان میں تھیں ابھی آپ راستے میں ہی تھے جو قریش کا بھیجا ہوا آدمی مکرز بن حفص آیا اور کہنے لگا : حضور آپ کی عادت تو عہد توڑنے کی نہیں ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا : ” کیا بات ہے ؟ “ ، وہ کہنے لگا کہ آپ تیر اور نیزے لے کر آ رہے ہیں آپ نے فرمایا : ” نہیں تو ہم نے وہ سب یاجج بھیج دیے ہیں “ ۔ اس نے کہا : یہی ہمیں آپ کی ذات سے امید تھی ، آپ ہمیشہ سے بھلائی اور نیکی اور وفاداری ہی کرنے والے ہیں ، سرداران کفار تو بوجہ غیظ و غضب اور رنج و غم کے شہر سے باہر چلے گئے کیونکہ وہ تو آپ کو اور آپ کے اصحاب رضی اللہ عنہم کو دیکھنا بھی نہیں چاہتے تھے اور لوگ جو مکہ میں رہ گئے تھے وہ مرد ، عورت ، بچے تمام راستوں پر اور کوٹھوں پر اور چھتوں پر کھڑے ہو گئے اور ایک استعجاب کی نظر سے اس مخلص گروہ کو اس پاک لشکر کو اس اللہ کی فوج کو دیکھ رہے تھے ۔ آپ نے قربانی کے جانور ذی طوٰی میں بھیج دئیے تھے ، خود آپ اپنی مشہور و معروف سواری اونٹنی قصوا پر سوار تھے ، آگے آگے آپ کے اصحاب رضی اللہ عنہم تھے جو برابر لبیک پکار رہے تھے ۔ سیدنا عبداللہ بن رواحہ انصاری رضی اللہ عنہ آپ کی اونٹنی کی نکیل تھامے ہوئے تھے اور یہ اشعار پڑھ رہے تھے «باسم الذی لا دین الا دینہ» *** «بسم الذی محمد رسولہ» *** «خلوا بنی الکفار عن سبیلہ» *** «الیوم نضربکم علی تاویلہ» *** «کما ضربنا کم علی تنزیلہ» *** «ضربا یزیل الھام عن مقیلہ» *** «ویذھل الخلیل عن خلیلہ» *** «قد انزل الرحمن فی تنزیلہ» *** «فی صحف تتلی علی رسولہ» *** «بان خیرالقتل فی سبیلہ» *** «یا رب انی مومن بقیلہ» ۱؎ (سیرۃ ابن ھشام:320/3:مرسل) یعنی ’ اس اللہ عزوجل کے نام سے جس کے دین کے سوا اور کوئی دین قابل قبول نہیں ۔ اس اللہ کے نام سے جس کے رسول نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ۔ اے کافروں کے بچو ! نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے راستے سے ہٹ جاو ، آج ہم تمہیں آپ کے لوٹنے پر بھی ویسا ہی ماریں گے ، جیسے آپ کے آنے پر مارا تھا، وہ مار جو دماغ کو اس کے ٹھکانے سے ہٹا دے اور دوست کو دوست سے بھلا دے ۔ اللہ تعالیٰ رحم والے نے اپنی وحی میں نازل فرمایا ہے ، جو ان صحیفوں میں موجود ہے جو اس کے رسول کے سامنے تلاوت کیے جاتے ہیں کہ سب سے بہتر موت شہادت کی موت ہے ، جو اس کی راہ میں ہو ۔ اے میرے پروردگار اس بات پے ایمان لا چکا ہوں ‘ ۔ بعض روایتوں میں یہ الفاظ میں کچھ ہیر پھیر بھی ہے ۔ مسند احمد میں ہے کہ اس عمرے کے سفر میں جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم [ مر الظہران ] میں پہنچے تو صحابہ رضی اللہ عنہم نے سنا کہ اہل مکہ کہتے ہیں یہ لوگ بوجہ لاغری اور کمزوری کے اٹھ بیٹھ نہیں سکتے یہ سن کر صحابہ رضی اللہ عنہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا : اگر آپ اجازت دیں تو ہم اپنی سواریوں کے چند جانور ذبح کر لیں ان کا گوشت کھائیں اور شوربا پئیں اور تازہ دم ہو کر مکہ میں جائیں ۔ آپ نے فرمایا : ” نہیں ایسا نہ کرو ، تمہارے پاس جو کھانا ہو اسے جمع کرو “ ، چنانچہ جمع کیا دستر خوان بچھایا اور کھانے بیٹھے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کی وجہ سے کھانے میں اتنی برکت ہوئی کہ سب نے کھا پی لیا اور توشے دان بھر لیے ۔ آپ مکہ شریف آئے سیدھے بیت اللہ گئے قریشی حطیم کی طرف بیٹھے ہوئے تھے آپ نے چادر کے پلے دائیں بغل کے نیچے سے نکال کر بائیں کندھے پر ڈال لیے اور اصحاب رضی اللہ عنہم سے فرمایا : ” یہ لوگ تم میں سستی اور لاغری محسوس نہ کریں “ ، اب آپ نے رکن کو بوسہ دے کر دوڑنے کی سی چال سے طواف شروع کیا جب رکن یمانی کے پاس پہنچے جہاں قریش کی نظریں نہیں پڑتی تھیں تو وہاں سے آہستہ آہستہ چل کر حجر اسود تک پہنچے ۔ قریش کہنے لگے تم لوگ تو ہرنوں کی طرح چوکڑیاں بھر رہے ہو گویا چلنا تمہیں پسند ہی نہیں ، تین مرتبہ تو آپ اسی طرح ہلکی دوڑ کی سی چال حجر اسود سے رکن یمانی تک چلتے رہے تین پھیرے اس طرح کئے چنانچہ یہی مسنون طریقہ ہے ۔ ایک روایت میں ہے کہ آپ نے حجتہ الوداع میں بھی اسی طرح طواف کے تین پھیروں میں رمل کیا یعنی دلکی چال چلے ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:1889) بخاری مسلم میں ہے کہ { اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو مدینے کی آب و ہوا شروع میں کچھ ناموافق پڑی تھی اور بخار کی وجہ سے یہ کچھ لاغر ہو گئے تھے ، جب آپ مکہ پہنچے تو مشرکین مکہ نے کہا یہ لوگ جو آ رہے ہیں انہیں مدینے کے بخار نے کمزور اور سست کر دیا اللہ تعالیٰ نے مشرکین کے اس کلام کی خبر اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو کر دی ۔ مشرکین حطیم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے ۔ آپ نے اپنے اصحاب کو حکم دیا کہ وہ حجر اسود سے لے کر رکن یمانی تک طواف کے تین پہلے پھیروں میں دلکی چال چلیں اور رکن یمانی سے حجر اسود تک جہاں جانے کے بعد مشرکین کی نگاہیں نہیں پڑتی تھیں ، وہاں ہلکی چال چلیں پورے ساتوں پھیروں میں رمل کرنے کو نہ کہنا یہ صرف بطور رحم کے تھا ، مشرکوں نے جب دیکھا کہ یہ تو سب کے سب کود کود کر پھرتی اور چستی سے طواف کر رہے ہیں تو آپس میں کہنے لگے کیوں جی انہی کی نسبت اڑا رکھا تھا کہ مدینے کے بخار نے انہیں سست و لاغر کر دیا ہے ؟ یہ لوگ تو فلاں فلاں سے بھی زیادہ چست و چالاک ہیں } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4256) ایک روایت میں ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ذوالقعدہ کی چوتھی تاریخ کو مکہ شریف پہنچ گئے تھے اور روایت میں ہے کہ مشرکین اس وقت قعیقعان کی طرف تھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا صفا مروہ کی طرف سعی کرنا بھی مشرکوں کو اپنی قوت دکھانے کے لیے تھا } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4257) { سیدنا ابن ابی اوفی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اس دن ہم آپ پر چھائے ہوئے تھے اس لیے کہ کوئی مشرک یا کوئی ناسمجھ آپ کو کوئی ایذاء نہ پہنچا سکے } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4255) بخاری شریف میں ہے { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عمرے کے لیے نکلے لیکن کفار قریش نے راستہ روک لیا اور آپ کو بیت اللہ شریف تک نہ جانے دیا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہیں قربانیاں کیں اور وہیں یعنی حدیبیہ میں سر منڈوا لیا اور ان سے صلح کر لی جس میں یہ طے ہوا کہ آپ اگلے سال عمرہ کریں گے سوائے تلواروں کے اور کوئی ہتھیار اپنے ساتھ لے کر مکہ مکرمہ میں نہیں آئیں گے اور وہاں اتنی ہی مدت ٹھہریں گے جتنی اہل مکہ چاہیں پس اگلے سال آپ اسی طرح آئے تین دن تک ٹھہرے پھر مشرکین نے کہا اب آپ چلے جائیں چنانچہ آپ وہاں سے واپس ہوئے } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4252) صحیح بخاری شریف میں ہے کہ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ذی قعدہ میں عمرہ کرنے کا ارادہ کیا لیکن اہل مکہ حائل ہوئے تو آپ نے ان سے یہ فیصلہ کیا کہ آپ صرف تین دن ہی مکہ میں ٹھہریں گے جب صلح نامہ لکھنے لگے تو لکھا یہ وہ ہے جس پر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صلح کی تو اہل مکہ نے کہا کہ اگر آپ کو ہم رسول اللہ جانتے تو ہرگز نہ روکتے بلکہ آپ محمد بن عبداللہ لکھئیے ۔ آپ نے فرمایا : ” میں رسول اللہ ہوں میں محمد بن عبداللہ ہوں “ ، پھر آپ نے سیدنا علی بن ابوطالب رضی اللہ عنہ سے فرمایا : ” لفظ رسول کو مٹا دو “ ۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ” نہیں نہیں ، قسم اللہ کی ! میں اسے ہرگز نہ مٹاؤں گا “ ، چنانچہ آپ نے اس صلح نامہ کو اپنے ہاتھ میں لے کر باوجود اچھی طرح لکھنا نہ جاننے کے لکھا ، کہ یہ وہ ہے جس پر محمد بن عبداللہ نے صلح کی ۔ یہ کہ مکہ میں ہتھیار لے کر داخل نہ ہوں گے ، صرف تلوار ہو گی اور وہ بھی میان میں اور یہ کہ اہل مکہ میں سے جو آپ کے ساتھ جانا چاہے گا اسے آپ اپنے ساتھ نہیں لے جائیں گے اور یہ کہ آپ کے ساتھیوں میں سے جو مکے میں رہنے کے ارادے سے ٹھہر جانا چاہے گا آپ اسے روکیں گے نہیں ، پس جب آپ آئے اور وقت مقررہ گزر چکا تو مشرکین سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور کہا آپ حضور سے کہئے کہ اب وقت گزر چکا تشریف لے جائیں ، چنانچہ آپ نے کوچ کر دیا ۔ سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی چچا چچا کہہ کر آپ کے پیچھے ہو لیں ، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے انہیں لے لیا اور انگلی تھام کر سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے پاس لے گئے اور فرمایا : اپنے چچا کی لڑکی کو اچھی طرح رکھو سیدہ زہرا رضی اللہ عنہا نے بڑی خوشی سے بچی کو اپنے پاس بٹھا لیا ۔ اب سیدنا علی اور سیدنا جعفر رضی اللہ عنہما میں جھگڑا ہونے لگا ، سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے تھے انہیں میں لے آیا ہوں اور یہ میرے چچا کی صاحبزادی ہیں ، سیدنا جعفر رضی اللہ عنہ فرماتے تھے میری چچا زاد بہن ہے اور ان کی خالہ میرے گھر میں ہیں ۔ سیدنا زید رضی اللہ عنہ فرماتے تھے میرے بھائی کی لڑکی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جھگڑے کا فیصلہ یوں کیا کہ لڑکی کو تو ان کی خالہ کو سونپا اور فرمایا خالہ قائم مقام ماں کے ہے ۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا : ” تو مجھ سے ہے اور میں تجھ سے ہوں “ ۔ سیدنا جعفر رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ تو خلق اور خلق میں مجھ سے پوری مشابہت رکھتا ہے ۔ سیدنا زید رضی اللہ عنہ سے فرمایا : ” تو ہمارا بھائی اور ہمارا مولیٰ ہے “ ۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے کہا : یا رسول اللہ ! آپ سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کی لڑکی سے نکاح کیوں نہ کر لیں ؟ آپ نے فرمایا : ” وہ میرے رضاعی بھائی کی لڑکی ہے “ ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4251) پھر فرماتا ہے اللہ تعالیٰ جس خیر و مصلحت کو جانتا تھا اور جسے تم نہیں جانتے تھے اس بنا پر تمہیں اس سال مکہ میں نہ جانے دیا اور اگلے سال جانے دیا اور اس جانے سے پہلے ہی جس کا وعدہ خواب کی شکل میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوا تھا تمہیں فتح قریب عنایت فرمائی ۔ یہ فتح وہ صلح ہے جو تمہارے دشمنوں کے درمیان ہوئی ۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ مومنوں کو خوشخبری سناتا ہے کہ وہ اپنے رسول کو ان دشمنوں پر اور تمام دشمنوں پر فتح دے گا اس نے آپ کو علم نافع اور عمل صالح کے ساتھ بھیجا ہے ، شریعت میں دو ہی چیزیں ہوتی ہیں علم اور عمل پس علم شرعی صحیح علم ہے اور عمل شرعی مقبولیت والا عمل ہے ۔ اس کے اخبار سچے ، اس کے احکام سراسر عدل و حق والے ۔ چاہتا یہ ہے کہ روئے زمین پر جتنے دین ہیں عربوں میں ، عجمیوں میں ، مسلمین میں ، مشرکین میں ، ان سب پر اس اپنے دین کو غالب اور ظاہر کرے ، اللہ کافی گواہ ہے اس بات پر کہ آپ اللہ کے رسول ہیں اور اللہ ہی آپ کا مددگار ہے ۔ «واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم»