وَلَوْ قَاتَلَكُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا لَوَلَّوُا الْأَدْبَارَ ثُمَّ لَا يَجِدُونَ وَلِيًّا وَلَا نَصِيرًا
اور اگر اہل کفر تم سے قتال کرتے تو وہ پیٹھ پھیر کر بھاگتے (١٤) پھر وہ اپنا کوئی یارومددگار نہ پاتے
1 پھر اللہ تبارک وتعالیٰ مسلمانوں کو خوشخبری سناتا ہے کہ وہ کفار سے مرعوب اور خائف نہ ہوں اگر کافر مقابلہ پر آئے تو اللہ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کی مدد کرے گا ۔ اور ان بے ایمانوں کو شکست فاش دے گا یہ پیٹھ دکھائیں گے اور منہ پھیر لیں گے اور کوئی والی اور مددگار بھی انہیں نہ ملے گا اس لیے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے لڑنے کے لیے آئے ہیں اور اس کے ایماندار بندوں کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں ۔ پھر فرماتا ہے یہی اللہ کی عادت ہے کہ جب کفر و ایمان کا مقابلہ ہو وہ ایمان کو کفر پر غالب کرتا ہے اور حق کو ظاہر کر کے باطل کو دبا دیتا ہے جیسے کہ بدر والے دن بہت سے کافروں کو جو باسامان تھے چند مسلمانوں کے مقابلہ میں جو بےسرو سامان تھے شکست فاش دی ۔ پھر اللہ سبحانہ وتعالیٰ فرماتا ہے میرے احسان کو بھی نہ بھولو کہ میں نے مشرکوں کے ہاتھ تم تک نہ پہنچنے دئیے اور تمہیں بھی مسجد الحرام کے پاس لڑنے سے روک دیا اور تم میں اور ان میں صلے کرا دی جو دراصل تمہارے حق میں سراسر بہتری ہے کیا دنیا کے اعتبار سے اور کیا آخرت کے اعتبار سے ۔ وہ حدیث یاد ہو گی جو اسی سورت کی تفسیر میں بروایت سیدنا سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ گزر چکی ہے کہ { جب ستر کافروں کو باندھ کر صحابہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں پیش کیا تو آپ نے فرمایا : ” انہیں جانے دو ان کی طرف سے ہی ابتداء ہو اور انہی کی طرف سے دوبارہ شروع ہو “ } ۔ اسی بابت یہ آیت اتری ۔ مسند احمد میں ہے کہ { اسی [ 80 ] کافر ہتھیاروں سے آراستہ جبل تنعیم کی طرف سے چپ چپاتے موقعہ پا کر اتر آئے لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم غافل نہ تھے ، آپ نے فوراً لوگوں کو آگاہ کر دیا سب گرفتار کر لیے گئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کئے گئے آپ نے ازراہ مہربانی ان کی خطا معاف فرما دی اور سب کو چھوڑ دیا } ۔ اور نسائی میں بھی ہے { سیدنا عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : جس درخت کا ذکر قرآن میں ہے اس کے نیچے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تھے ہم لوگ بھی آپ کے اردگرد تھے اس درخت کی شاخیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کمر سے لگ رہی تھیں ، سیدنا علی بن ابوطالب اور سیدنا سہیل بن عمرو رضی اللہ عنہما آپ کے سامنے تھے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا : ” «بسم اللہ الرحمن الرحیم» لکھو “ اس پر سہیل نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ تھام لیا اور کہا ہم «رحمن» اور «رحیم» کو نہیں جانتے ، ہمارے اس صلح نامہ میں ہمارے دستور کے مطابق لکھوائیے ، پس آپ نے فرمایا : ” «باسمک اللھم» لکھ لو “ ۔ پھر لکھا یہ وہ ہے جس پر اللہ کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل مکہ سے صلح کی اس پر پھر سہیل نے آپ کا ہاتھ تھام کر کہا آپ رسول اللہ ہی ہیں تو پھر ہم نے بڑا ظلم کیا ، اس صلح نامہ میں وہی لکھوائیے جو ہم میں مشہور ہے ، تو آپ نے فرمایا : ” لکھو یہ وہ ہے جس پر محمد بن عبداللہ نے اہل مکہ سے صلح کی “ ، اتنے میں تیس نوجوان کفار ہتھیار بند آن پڑے ، آپ نے ان کے حق میں بد دعا کی ، اللہ نے انہیں بہرا بنا دیا ہم اٹھے اور ان سب کو گرفتار کر کے آپ کے سامنے پیش کر دیا ۔ آپ نے ان سے دریافت فرمایا کہ کیا تمہیں کسی نے امن دیا ہے ـ ؟ یا تم کسی کی ذمہ داری پر آئے ہو ؟ انہوں نے انکار کیا لیکن باوجود اس کے آپ نے ان سے درگزر فرمایا اور انہیں چھوڑ دیا ۔ اس پر یہ آیت «وھوالذی» الخ ، نازل ہوئی } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:1808-133) ابن جریر میں ہے { جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم قربانی کے جانور لے کر چلے اور ذوالحلیفہ تک پہنچ گئے تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کی ، اے اللہ کے نبی ! آپ ایک ایسی قوم کی بستی میں جا رہے ہیں ۱؎ (مسند احمد:86/4:صحیح) جو برسرپیکار ہیں اور آپ کے پاس نہ تو ہتھیار ہیں نہ اسباب ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر آدمی بھیج کر مدینہ سے سب ہتھیار اور کل سامان منگوا لیا جب آپ مکہ کے قریب پہنچ گئے تو مشرکین نے آپ کو روکا ، آپ مکہ نہ آئیں ، آپ کو خبر دی کہ عکرمہ بن ابوجہل پانچ سو کا لشکر لے کر آپ پر چڑھائی کرنے کے لیے آ رہا ہے آپ نے سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ سے فرمایا : ” اے خالد ! تیرا چچازاد بھائی لشکر لے کر آ رہا ہے “ ۔ سیدنا خالد رضی اللہ عنہ نے فرمایا پھر کیا ہوا ؟ میں اللہ کی تلوار ہوں اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ، اسی دن سے آپ کا لقب سیف اللہ ہوا ۔ مجھے آپ جہاں چاہیں اور جس کے مقابلہ میں چاہیں بھیجیں ، چنانچہ عکرمہ کے مقابلہ کے لیے آپ روانہ ہوئے گھاٹی میں دونوں کی مڈبھیڑ ہوئی سیدنا خالد رضی اللہ عنہ نے ایسا سخت حملہ کیا کہ عکرمہ کے پاؤں نہ جمے اسے مکہ کی گلیوں تک پہنچا کر سیدنا خالد رضی اللہ عنہ واپس آ گئے لیکن پھر دوبارہ وہ تازہ دم ہو کر مقابلہ پر آیا ، اب کی مرتبہ بھی شکست کھا کر مکہ کی گلیوں میں پہنچ گیا وہ پھر تیسری مرتبہ نکلا اس مرتبہ بھی یہی حشر ہوا } ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:356/11:مرسل) اسی کا بیان آیت «وَہُوَ الَّذِیْ کَفَّ اَیْدِیَہُمْ عَنْکُمْ وَاَیْدِیَکُمْ عَنْہُمْ بِبَطْنِ مَکَّۃَ مِنْۢ بَعْدِ اَنْ اَظْفَرَکُمْ عَلَیْہِمْ ۭ وَکَان اللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرًا» ۱؎ (48-الفتح:24) میں ہے ۔ پس اللہ تعالیٰ نے باوجود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ظفر مندی کے کفار کو بھی بچا لیا تاکہ جو مسلمان ضعفاء اور کمزور مکہ میں تھے انہیں اسلامی لشکر کے ہاتھوں کوئی گذند نہ پہنچے لیکن اس روایت میں بہت کچھ نظر ہے ناممکن ہے کہ یہ حدیبیہ والے واقعہ کا ذکر ہو ، اس لیے کہ اس وقت تک تو سیدنا خالد رضی اللہ عنہ مسلمان ہی نہ ہوئے تھے بلکہ مشرکین کے طلایہ کے یہ اس دن سردار تھے ۔ جیسے کہ صحیح حدیث میں موجود ہے اور یہ بھی نہیں ہو سکتا کہ یہ واقعہ عمرۃ القضاء کا ہو ۔ اس لیے کہ حدیبیہ کے صلح نامہ کی شرائط کے مطابق یہ طے شدہ امر تھا کہ اگلے سال نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آئیں عمرہ ادا کریں اور تین دن تک مکہ میں ٹھہریں چنانچہ اسی قرارداد کے مطابق جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما ہوئے تو کافروں نے آپ کو روکا نہیں ، نہ آپ سے جنگ و جدال کیا ۔ اسی طرح یہ بھی نہیں ہو سکتا کہ یہ واقعہ فتح مکہ کا ہو اس لیے کہ فتح مکہ والے سال آپ اپنے ساتھ قربانیاں لے کر نہیں گئے تھے اس وقت تو آپ جنگی حیثیت سے گئے تھے ، لڑنے اور جہاد کرنے کی نیت سے تشریف لے گئے تھے ، پس اس روایت میں بہت کچھ خلل ہے اور اس میں ضرور قباحت واقع ہوئی ہے خوب سوچ لینا چاہیئے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے مولیٰ سیدنا عکرمہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ { قریش نے اپنے چالیس یا پچاس آدمی بھیجے کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لشکر کے اردگرد گھومتے رہیں اور موقعہ پا کر کچھ نقصان پہنچائیں یا کسی کو گرفتار کر کے لے آئیں ، یہاں یہ سارے کے سارے پکڑے لیے گئے لیکن پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں معاف فرما دیا اور سب کو چھوڑ دیا انہوں نے آپ کے لشکر پر کچھ پتھر بھی پھینکے تھے اور کچھ تیر بھی چلائے تھے } ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:31556) یہ بھی مروی ہے کہ { ایک صحابی جنہیں ابن زنیم کہا جاتا تھا حدیبیہ کے ایک ٹیلے پر چڑھے تھے مشرکین نے تیربازی کر کے ان کو شہید کر دیا ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ سوار ان کے تعاقب میں روانہ کئے وہ ان سب کو جو تعداد میں بارہ سو تھے گرفتار کر کے لے آئے ، آپ نے ان سے پوچھا کہ کوئی عہد و پیمان ہے ؟ کہا نہیں لیکن پھر بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں چھوڑ دیا ۔ اور اسی بارے میں آیت «وَہُوَ الَّذِیْ کَفَّ اَیْدِیَہُمْ عَنْکُمْ وَاَیْدِیَکُمْ عَنْہُمْ بِبَطْنِ مَکَّۃَ مِنْ بَعْدِ اَنْ اَظْفَرَکُمْ عَلَیْہِمْ وَکَان اللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرًا» ۱؎ (48-الفتح:24) نازل ہوئی ۔