فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللَّهِ لِنتَ لَهُمْ ۖ وَلَوْ كُنتَ فَظًّا غَلِيظَ الْقَلْبِ لَانفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ ۖ فَاعْفُ عَنْهُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَهُمْ وَشَاوِرْهُمْ فِي الْأَمْرِ ۖ فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ ۚ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُتَوَكِّلِينَ
آپ محض اللہ کی رحمت سے ان لوگوں کے لیے نرم (109) ہوئے ہیں، اور اگر آپ بدمزاج اور سخت دل ہوتے تو وہ آپ کے پاس سے چھٹ جاتے، پس آپ انہیں معاف کردیجئے، اور ان کے لیے مغفرت طلب کیجیے، اور معاملات میں ان سے مشورہ لیجیے، پس جب آپ پختہ ارادہ کرلیجئے تو اللہ پر بھروسہ کیجیے، اللہ تعالیٰ توکل کرنے والوں سے محبت رکھتا ہے۔
اسوہ حسنہ کے مالک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ اپنے نبی پر اور مسلمانوں پر اپنا احسان جتاتا ہے کہ نبی کے ماننے والوں اور ان کی نافرمانی سے بچنے والوں کے لیے اللہ نے نبی کے دل کو نرم کر دیا ہے اگر اس کی رحمت نہ ہوتی تو اتنی نرمی اور آسانی نہ ہوتی ، سیدنا قتادہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں «ما» صلہ ہے جو معرفہ کے ساتھ عرب ملا دیا کرتے ہیں جیسے آیت «فَبِمَا نَقْضِہِمْ مِّیْثَاقَہُمْ» (5-المائدۃ:13) ، میں اور نکرہ کے ساتھ بھی ملا دیتے ہیں جیسے «عَمَّا قَلِیلٍ» (23-المؤمنون:40) ۱؎ میں اسی طرح یہاں ہے ، یعنی اللہ کی رحمت سے تو ان کے لیے نرم دل ہوا ہے ، حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق ہیں جن پر آپ کی بعثت ہوئی ہے ۔ یہ آیت ٹھیک اس آیت جیسی ہے «لَقَدْ جَاءَکُمْ رَسُولٌ مِّنْ أَنفُسِکُمْ عَزِیزٌ عَلَیْہِ مَا عَنِتٰمْ حَرِیصٌ عَلَیْکُم بِالْمُؤْمِنِینَ رَءُوفٌ رَّحِیمٌ» (9-التوبۃ:129) ، یعنی تمہارے پاس تم ہی میں سے ایک رسول آئے جس پر تمہاری مشقت گراں گزرتی ہے جو تمہاری بھلائی کے حریص ہیں جو مومنوں پر شفقت اور رحم کرنے والے ہیں ، مسند احمد میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوامامہ باہلی رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا اے ابوامامہ ! بعض مومن وہ ہیں جن کے لیے میرا دل تڑپ اٹھتا ہے ،(مسند احمد:217/5:حسن) ۱؎ «فَظًّا» سے مراد یہاں سخت کلام ہے ۔ کیونکہ اس کے بعد «غَلِیظَ الْقَلْبِ» کا لفظ ہے ، یعنی سخت دل ، فرمان ہے کہ نبی اکرم تم سخت کلام اور سخت دل ہوتے تو یہ لوگ تمہارے پاس سے منتشر ہو جاتے اور تمہیں چھوڑ دیتے لیکن اللہ تعالیٰ نے انہیں آپ کے جاں نثار و شیدا بنا دیا ہے اور آپ کو بھی ان کے لیے محبت اور نرمی عطا فرمائی ، اور تاکہ ان کے دل آپ سے لگے رہیں سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صفتوں کو اگلی کتابوں میں بھی پاتا ہوں کہ آپ سخت کلام ، سخت دل ، بازاروں میں شور مچانے والے اور برائی کا بدلہ لینے والے نہیں بلکہ در گزر کرنے والے اور معافی دینے والے ہیں ،(صحیح بخاری:4838) ۱؎ ترمذی کی ایک غریب حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں لوگوں کی آؤ بھگت خیر خواہی اور چشم پوشی کا مجھے اللہ کی جانب سے اسی طرح کا حکم کیا گیا ہے جس طرح فرائض کی پابندی کا ۔(ابن عدی فی الکامل:15/2:ضعیف) ۱؎ چنانچہ اس آیت میں بھی فرمان ہے تو ان سے درگزر کر ، ان کے لیے استغفار کر ، اور کاموں کا مشورہ ان سے لیا کر ، اسی لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارک تھی کہ لوگوں کو خوش کرنے کے لیے اپنے کاموں میں ان سے مشورہ ان سے لیا کرتے تھے ، ، جیسے کہ بدر والے دن قافلے کی طرف بڑھنے کے لیے مشورہ لیا اور جیسے کہ بدر والے دن قافلے کی طرف بڑھنے کے لیے مشورہ کیا۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہا کہ اگر آپ سمندر کے کنارے پر کھڑا کر کے ہمیں فرمائیں گے کہ اس میں کود پڑو اور اس پار نکلو تو ہم سرتابی نہ کریں گے اور اگر ہمیں برک الغماد تک لے جانا چاہیں تو بھی ہم آپ کے ساتھ ہیں ہم وہ نہیں کہ موسیٰ علیہ السلام کے صحابیوں کی طرح کہدیں کہ تو اور تیرا رب لڑ لے ہم تو یہاں بیٹھے ہیں بلکہ ہم تو آپ کے دائیں بائیں صفیں باندھ کر، جم کر دشمنوں کا مقابلہ کریں گے ،(صحیح بخاری:3952) ۱؎ اسی طرح آپ نے اس بات کا مشورہ بھی لیا کہ منزل کہاں ہو ؟ اور منذر بن عمرو رضی اللہ عنہ نے مشورہ دیا کہ ان لوگوں سے آگے بڑھ کر ان کے سامنے ہو ، اسی طرح احد کے موقع پر بھی آپ نے مشورہ کیا کہ آیا مدینہ میں رہ کر لڑیں یا رضی اللہ عنہ باہر نکلیں اور جمہور کی رائے یہی ہوئی کہ باہر میدان میں جا کر لڑنا چاہیئے چنانچہ آپ نے یہی کیا اور آپ نے جنگ احزاب کے موقع پر بھی اپنے اصحاب سے مشورہ کیا کہ مدینہ کے پھلوں کی پیداوار کا تہائی حصہ دینے کا وعدہ کر کے مخالفین سے مصالحت کر لی جائے ؟ تو سیدنا سعد بن عبادہ اور سیدنا سعد بن معاذ رضی اللہ عنہما نے اس کا انکار کیا اور آپ نے مجھے اس مشورے کو قبول کر لیا اور مصالحت چھوڑ دی ۔ اسی طرح آپ نے حدیبیہ والے دن اس امر کا مشورہ کیا کہ آیا مشرکین کے گھروں پر دھاوا بول دیں ؟ تو صدیق نے فرمایا ہم کسی سے لڑنے نہیں آئے ہمارا ارادہ صرف عمرے کا ہے چنانچہ اسے بھی آپ نے منظور فرما لیا ، اسی طرح جب منافقین نے آپ کی بیوی ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا پر تہمت لگائی تو آپ نے فرمایا اے مسلمانوں مجھے مشورہ دو کہ ان لوگوں کا میں کیا کروں جو میرے گھر والوں کو بدنام کر رہے ہیں ۔ اللہ کی قسم میرے گھر والوں میں کوئی برائی نہیں اور جس شخص کے ساتھ تہمت لگا رہے ہیں واللہ! میرے نزدیک تو وہ بھی بھلا آدمی ہے (صحیح بخاری:4757) ۱؎ اور آپ نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی جدائی کے لیے سیدنا علی اور سیدنا اسامہ رضی اللہ عنہما سے مشورہ لیا ، غرض لڑائی کے کاموں میں اور دیگر امور میں بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ رضی اللہ عنہم سے مشورہ کیا کرتے تھے ، اس میں علماء کا اختلاف ہے کہ یہ مشورے کا حکم آپ کو بطور وجوب کے دیا تھا یا اختیاری امر تھا تاکہ لوگوں کے دل خوش رہیں ، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں اس آیت میں ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما سے مشورہ کرنے کا حکم ہے ۔ (مستدرک حاکم:70/3:صحیح) ۱؎ ( حاکم ) یہ دونوں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حواری اور آپ کے وزیر تھے اور مسلمانوں کے باپ ہیں (ضعیف) ۱؎ ( کلبی ) مسند احمد میں ہے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں بزرگوں سے فرمایا اگر تمہاری دونوں کی کسی امر میں ایک رائے ہو جائے تو میں تمہارے خلاف کبھی نہ کروں گا ،(مسند احمد:227/4:ضعیف جداً) ۱؎ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال ہوتا ہے کہ عزم کے کیا معنی ہیں تو آپ نے فرمایا جب عقلمند لوگوں سے مشورہ کیا جائے پھر ان کی مان لینا (الدار المنشور للسیوطی:160/2)۱؎ ( ابن مردویہ ) ابن ماجہ میں آپ کا یہ فرمان بھی مروی ہے کہ جس سے مشورہ کیا جائے وہ امین ہو ، ابوداؤد ترمذی نسائی وغیرہ میں بھی یہ روایت ہے امام ترمذی رضی اللہ عنہ اسے حسن کہتے ہیں ،(سنن ابوداود:5128،قال الشیخ الألبانی:صحیح) ۱؎ اور روایت میں ہے کہ جب تم میں سے کوئی اپنے بھائی سے مشورہ لے تو اسے چاہیئے بھلی بات کا مشورہ دے(سنن ابن ماجہ:3747،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) ۱؎ ( ابن ماجہ ) پھر فرمایا جب تم کسی کام کا مشورہ کر چکو پھر اس کے کرنے کا پختہ ارادہ ہو جائے تو اب اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرو اللہ تعالیٰ بھروسہ کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے ۔ پھر دوسری آیت کا ارشاد بالکل اسی طرح کا ہے جو پہلے گزرا ہے کہ آیت «وَمَا النَّصْرُ إِلَّا مِنْ عِندِ اللہِ الْعَزِیزِ الْحَکِیمِ» (3-آل عمران:126) یعنی مدد صرف اللہ ہی کی طرف سے ہے جو غالب ہے اور حکمتوں والا ہے ، پھر حکم دیتا ہے کہ مومنوں کو توکل اور بھروسہ ذات باری پر ہی ہونا چاہیئے ۔ پھر فرماتا ہے نبی کو لائق نہیں کہ وہ خیانت کرے ، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں بدر کے دن ایک سرخ رنگ چادر نہیں ملتی تھی تو لوگوں نے کہا شاید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لے لی ہو اس پر یہ آیت اتری ( ترمذی )(سنن ابوداود:3971،قال الشیخ الألبانی:صحیح) ۱؎ اور روایت میں ہے کہ منافقوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر کسی چیز کی تہمت لگائی تھی جس پر آیت «وَمَا کَانَ لِنَبِیٍّ أَن یَغُلَّ» (3-آل عمران:161) اتری ، پس ثابت ہوا کہ اللہ کے رسول رسولوں کے سردار صلی اللہ علیہ وسلم پر ہر قسم کی خیانت سے بیجا طرف داری سے مبرا اور منزہ ہیں خواہ وہ مال کی تقسیم ہو یا امانت کی ادائیگی ہو ، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے یہ بھی مروی ہے کہ نبی جانب داری نہیں کر سکتا کہ بعض لشکریوں کو دے اور بعض کو ان کا حصہ نہ پہنچائے ، اس آیت کی یہ تفسیر بھی کی گئی ہے کہ یہ نہیں ہو سکتا کہ نبی اللہ کی نازل کردہ کسی چیز کو چھپا لے اور امت تک نہ پہنچائے ۔ یغل کے معنی اور خائن «یغل» کو “یُ“ کے پیش سے بھی پڑھا گیا ہے تو معنی یہ ہوں گے کہ نبی کی ذات ایسی نہیں کہ ان کے پاس والے ان کی خیانت کریں ، چنانچہ سیدنا قتادہ اور سیدنا ربیع رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ بدر کے دن آپ کے اصحاب نے مال غنیمت میں سے تقسیم سے پہلے کچھ لیے لیا تھا اس پر یہ آیت اتری ( ابن جریر ) پھر خائن لوگوں کو ڈرایا جاتا ہے اور سخت عذاب کی خبر دی جاتی ہے ۔ احادیث میں بھی اس کی بابت بہت کچھ سخت وعید ہے چنانچہ مسند احمد کی حدیث میں ہے کہ سب سے بڑا خیانت کرنے والا وہ شخص ہے جو پڑوسی کے کھیت کی زمین یا اس کے گھر کی زمین دبا لے اگر ایک ہاتھ زمین بھی ناحق اپنی طرف کر لے گا تو ساتوں زمینوں کا طوق اسے پہنایا جائے گا (مسند احمد:341/5:حسن بالشواھد) ۱؎ مسند کی ایک اور حدیث میں ہے جسے ہم حاکم بنائے اگر اس کا گھر نہ ہو تو وہ گھر بنا سکتا ہے ، بیوی نہ ہو تو کر سکتا ہے ، اس کے سوا اگر کچھ اور لے گا تو خائن ہو گا ،(مسند احمد:229/4:ضعیف) ۱؎ یہ حدیث ابوداؤد میں بھی دیگر الفاظ سے منقول ہے ،(سنن ابوداود:2945،قال الشیخ الألبانی:صحیح) ۱؎ ابن جریر کی حدیث میں ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں میں تم میں سے اس شخص کو پہچانتا ہوں جو چلاتی ہوئی بکری کو اٹھائے ہوئے قیامت کے دن آئے گا اور میرا نام لے لے کر مجھے پکارے گا میں کہ دوں گا کہ میں اللہ تعالیٰ کے پاس تیرے کام نہیں آسکتا میں تو پہنچا چکا تھا اسے بھی میں پہچانتا ہوں جو اونٹ کو اٹھائے ہوئے آئے گا جو بول رہا ہو گا یہ بھی کہے گا کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم میں کہوں گا میں تیرے لیے اللہ کے پاس کسی چیز کا مالک نہیں ہوں میں تو تبلیغ کر چکا تھا اور میں اسے بھی پہچانوں گا جو اسی طرح گھوڑے کو لادے ہوئے آئے گا جو ہنہنا رہا ہو گا وہ بھی مجھے پکارے گا اور میں کہ دوں گا کہ میں تو پہنچا چکا تھا آج کچھ کام نہیں آسکتا اور اس شخص کو بھی میں پہچانتا ہوں جو کھالیں لیے ہوئے حاضر ہو گا اور کہہ رہا ہو یا محمد صلی اللہ علیہ وسلم یا محمد صلی اللہ علیہ وسلم! میں کہوں گا میں اللہ کے پاس کسی نفع کا اختیار نہیں رکھتا میں تجھے حق و باطل بتا چکا تھا ، یہ حدیث صحاح ستہ میں نہیں۔(تفسیر ابن جریر الطبری:8157:صحیح) ۱؎ مسند احمد میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قبیلہ ازد کے ایک شخص کو حاکم بنا کر بھیجا جسے * ابن اللتبیہ * کہتے تھے یہ جب زکوٰۃ وصول کر کے آئے تو کہنے لگے یہ تو تمہارا ہے اور یہ مجھے تحفہ میں ملا ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر کھڑے ہو گئے اور فرمانے لگے ان لوگوں کو کیا ہو گیا ہے ہم انہیں کسی کام پر بھیجتے ہیں تو آ کر کہتے ہیں یہ تمہارا اور یہ ہمارے لیے تحفے ہے یہ اپنے گھروں میں بیٹھے رہتے پھر دیکھتے کہ انہیں تحفہ دیا ہے یا نہیں ؟ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے تم میں سے جو کوئی اس میں سے کوئی چیز بھی لے لے گا وہ قیامت کے دن اسے گردن پر اٹھائے ہوئے لائے گا اونٹ ہے تو چلا رہا ہو گا ۔ گائے ہے تو بول رہی ہو گی بکری ہے تو چیخ رہی ہو گی پھر آپ نے ہاتھ اس قدر بلند کئے کہ بغلوں کی سفیدی ہمیں نظر آنے لگی اور تین مرتبہ فرمایا اے اللہ ! کیا میں نے پہنچا دیا ؟(صحیح بخاری:2597) ۱؎ مسند احمد کی ایک ضعیف حدیث میں ہے ایسے تحصیلداروں اور حاکموں کو جو تحفے ملیں وہ خیانت ہیں (مسند احمد:424/5:صحیح بالشواھد) ۱؎ یہ روایت صرف مسند احمد میں ضعیف ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا اگلی مطول روایت کا ماحاصل ہے ترمذی میں ہے سیدنا معاذ بن جبل میں رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یمن میں بھیجا جب میں چل دیا تو آپ نے مجھے بلوایا جب میں واپس آیا تو فرمایا میں نے تمہیں صرف ایک بات کہنے کے لیے بلوایا ہے کہ میری اجازت کے بغیر تم جو کچھ لو گے وہ خیانت ہے اور ہر خائن اپنی خیانت کو لیے ہوئے قیامت کے دن آئے گا بس یہی کہنا تھا جاؤ اپنے کام میں لگو ،(سنن ترمذی:1335،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) ۱؎ مسند احمد میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک روز کھڑے ہو کر خیانت کا ذکر کیا اور اس کے بڑے بڑے گناہ اور وبال بیان فرما کر ہمیں ڈرایا پھر جانوروں کو لیے ہوئے قیامت کے دن آئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے فریاد رسی کی عرض کرنے اور آپ کے انکار کر دینے کا ذکر کیا جو پہلے بیان ہو چکا ہے اس میں سونے چاندی کا ذکر بھی ہے ، یہ حدیث بخاری مسلم میں بھی ہے ،(صحیح بخاری:3073)۱؎ مسند احمد میں ہے کہ رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے لوگ جسے ہم عامل بنائیں اور پھر وہ ہم سے ایک سوئی یا اس سے بھی ہلکی چیز چھپائے تو وہ خیانت ہے جسے لے کر وہ قیامت کے دن حاضر ہو گا ، یہ سن کر ایک سانولے رنگ کے انصاری سیدنا سعید بن عبادہ رضی اللہ عنہ کھڑے ہو کر کہنے لگے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میں تو عامل بننے سے دستبردار ہوتا ہوں ، فرمایا کیوں ؟ کہا آپ نے جو اس طرح فرمایا ، آپ نے فرمایا ہاں اب بھی سنو! ہم کوئی کام سونپیں اسے چاہیئے کہ تھوڑا بہت سب کچھ لائے جو اسے دیا جائے وہ لے لے اور جس سے روک دیا جائے رک جائے ، یہ حدیث مسلم اور ابوداؤد میں بھی ہے۔ (صحیح مسلم:1833) ۱؎ سیدنا رافع رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عموماً نماز عصر کے بعد بنو عبدالاشہل کے ہاں تشریف لے جاتے تھے اور تقریباً مغرب تک وہیں مجلس رہتی تھی ایک دن مغرب کے وقت وہاں سے واپس چلے وقت تنگ تھا تیز تیز چل رہے تھے بقیع میں آ کر فرمانے لگے تف ہے تجھے تف ہے تجھے میں سمجھا آپ مجھے فرما رہے ہیں چنانچہ میں اپنے کپڑے ٹھیک ٹھاک کرنے لگا اور پیچھے رہ گیا بلکہ یہ قبر فلاں شخص کی ہے اسے میں نے قبیلے کی طرف عامل بنا کر بھیجا تھا اس نے ایک چادر لے لی وہ چادر اب آگ بن کر اس کے اوپر بھڑک رہی ہے ۔ ( مسند احمد ) (مسند احمد:392/6:صحیح) ۱؎ سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مال غنیمت کے اونٹ کی پیٹھ کے چند بال لیتے پھر فرماتے میرا بھی اس میں وہی حق ہے جو تم میں سے کسی ایک کا ، خیانت سے بچو خیانت کرنے والے کی رسوائی قیامت کے دن ہو گی سوئی دھاگے تک پہنچا دو اور اس سے حقیر چیز بھی اللہ تعالیٰ کی راہ میں نزدیک والوں اور دور والوں سے جہاد کرو ، وطن میں بھی اور سفر میں بھی جہاد جنت کے دروازوں میں سے ایک دروازہ ہے جہاد کی وجہ سے اللہ تعالیٰ مشکلات سے اور رنج و غم سے نجات دیتا ہے ، اللہ کی حدیں نزدیک و دور والوں میں جاری کرو اللہ کے بارے میں کسی ملامت کرنے کی ملامت تمہیں نہ روکے ( مسند احمد ) اس حدیث کا بعض حصہ ابن ماجہ میں بھی مروی ہے ، (مسند احمد:330/5:صحیح) ۱؎ سیدنا ابومسعود انصاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عامل بنا کر بھیجنا چاہا تو فرمایا اے ابومسعود! جاؤ ایسا نہ ہو کہ میں تمہیں قیامت کے دن اس حال میں پاؤں کہ تمہاری پیٹھ پر اونٹ ہو جو آواز نکال رہا ہو جسے تم نے خیانت سے لے لیا ہو ، میں نے کہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پھر تو میں نہیں جاتا آپ نے فرمایا اچھا میں تمہیں زبردستی بھیجتا بھی نہیں ( ابوداؤد ) (سنن ابوداود:2947،قال الشیخ الألبانی:صحیح)۱؎ ابن مردویہ میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اگر کوئی پتھر جہنم میں ڈالا جائے تو ستر سال تک چلتا رہے لیکن تہہ کو نہیں پہنچتا خیانت کی چیز کو اسی طرح جہنم میں پھینک دیا جائے گا ، پھر خیانت والے سے کہا جائے گا جا اسے لے آ ، یہی معنی ہیں اللہ کے اس فرمان کے آیت «وَمَن یَغْلُلْ یَأْتِ بِمَا غَلَّ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ» (3-آل عمران:161) ۱؎ مسند احمد میں ہے کہ خیبر کی جنگ والے دن صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آنے لگے اور کہنے لگے فلاں شہید ہے فلاں شہید ہے جب ایک شخص کی نسبت یہ کہا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہرگز نہیں میں نے اسے جہنم میں دیکھا ہے کیونکہ اس نے غنیمت کے مال کی ایک چادر خیانت کر لی تھی پھر آپ نے فرمایا اے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ تم جاؤ اور لوگوں میں منادی کر دو کہ جنت میں صرف ایماندار ہی جائیں گے چنانچہ میں چلا اور سب میں یہ ندا کر دی ، یہ حدیث مسلم اور ترمذی میں بھی ہے امام ترمذی اسے حسن صحیح کہتے ہیں ۔(صحیح مسلم:114) ۱؎ ابن جریر میں ہے کہ ایک دن عمر رضی اللہ عنہ نے سیدنا عبداللہ بن انیس رضی اللہ عنہ سے صدقات کے بارے میں تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ تم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان نہیں سنا ؟ کہ آپ نے صدقات میں خیانت کرنے والے کی نسبت فرمایا اس میں جو شخص اونٹ یا بکری لے لے وہ قیامت والے دن اسے اٹھائے ہوئے آئے گا ۔ سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہاں یہ روایت ابن ماجہ میں بھی ہے ،(سنن ابن ماجہ:1810،قال الشیخ الألبانی:صحیح) ۱؎ ابن جریر میں سیدنا سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہیں صدقات وصول کرنے کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھیجنا چاہا اور فرمایا اے سعد رضی اللہ عنہ ایسا نہ ہو کہ قیامت کے دن تو بلبلاتے اونٹ کو اٹھا کر لائے تو سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کہنے لگے کہ نہ میں اس عہدہ کو لوں اور نہ ایسا ہونے کا احتمال رہے چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس کام سے انہیں معاف رکھا ،(تفسیر ابن جریر الطبری:8162:صحیح) ۱؎ مسند احمد میں ہے کہ مسلمہ بن عبدالملک رحمہ اللہ کے ساتھ روم کی جنگ میں سیدنا سالم بن عبداللہ رحمہ اللہ بھی تھے ایک شخص کے اسباب میں کچھ خیانت کا مال بھی نکلا سردارِ لشکر نے سیدنا سالم رحمہ اللہ سے اس کے بارے میں فتویٰ پوچھا تو آپ نے فرمایا مجھ سے میرے باپ عبداللہ رضی اللہ عنہ نے اور ان سے ان کی باپ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس کے اسباب میں تم چوری کا مال پاؤ اسے جلا دو ، راوی کہتا ہے میرا خیال ہے یہ بھی فرمایا اور اسے سزا دو ، چنانچہ جب اس کا مال بازار میں نکالا تو اس میں ایک قرآن شریف بھی تھا سیدنا سالم رضی اللہ عنہ سے پھر اس کی بابت پوچھا گیا آپ نے فرمایا اسے بیچ دو اور اس کی قیمت صدقہ کر دو ، یہ حدیث ابوداؤد اور ترمذی میں بھی ہے ،(مسند احمد:22/1:ضعیف) ۱؎ امام علی بن مدینی اور امام بخاری رحمہ اللہ علیہم وغیرہ فرماتے ہیں یہ حدیث منکر ہے ، امام دارقطنی رحمہ اللہ فرماتے ہیں صحیح یہ ہے کہ یہ سیدنا سالم رحمہ اللہ کا اپنا فتویٰ ہے ، سیدنا امام احمد رحمہ اللہ اور ان کے ساتھیوں کا قول بھی یہی ہے ، سیدنا حسن رضی اللہ عنہ بھی یہی کہتے ہیں۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اس کا اسباب جلا دیا جائے اور اسے مملوک کی حد سے کم مارا جائے اور اس کا حصہ نہ دیا جائے ، ابوحنیفہ ،مالک، شافعی رحمہ اللہ علیہم اور جمہور کا مذہب اس کے برخلاف ہے یہ کہتے ہیں اس کا اسباب نہ جلایا جائے بلکہ اس کے مثل اسے تعزیر یعنی سزا دی جائے ، امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خائن کے جنازے کی نماز سے انکار کر دیا اور اس کا اسباب نہیں جلایا ، واللہ اعلم مسند احمد میں ہے کہ قرآن شریف کے جب تغیر کا حکم کیا گیا تو سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرمانے لگے تم میں سے جس سے ہو سکے وہ اسے چھپا کر رکھ لے کیونکہ جو شخص جس چپز کو چھپا کر رکھ لے گا اسی کو لے کر قیامت کے روز آئے گا ، پھر فرمانے لگے میں نے ستر دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی پڑھا ہے پس کیا میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پڑھائی ہوئی قرأت کو چھوڑ دوں ؟ (مسند احمد:414/1:صحیح موقوف) ۱؎ امام وکیع رحمہ اللہ بھی اپنی تفسیر میں اسے لائے ہیں ، ابوداؤد میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارکہ تھی کہ جب مال غنیمت آتا تو آپ سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کو حکم دیتے اور وہ لوگوں میں منادی کرتے کہ جس جس کے پاس جو جو ہو لے آئے پھر آپ اس میں سے پانچواں حصہ نکال لیتے اور باقی کو تقسیم کر دیتے ۔ ایک مرتبہ ایک شخص اس کے بعد بالوں کا ایک گچھا لے کر آیا اور کہنے لگا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس یہ رہ گیا تھا آپ نے فرمایا کیا تو نے سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کی منادی سنی تھی ؟ جو تین مرتبہ ہوئی تھی اس نے کہا ہاں فرمایا پھر تو اس وقت کیوں نہ لایا ؟ اس نے عذر بیان کیا آپ نے فرمایا اب میں ہرگز نہ لوں گا تو ہی اسے لے کر قیامت کے دن آنا ۔(سنن ابوداود:2712،قال الشیخ الألبانی:صحیح) ۱؎ اللہ دو عالم پھر فرماتا ہے کہ اللہ کی شرع پر چل کر، اللہ تعالیٰ کی رضا مندی کے مستحق ہونے والے ،اس کے ثوابوں کو حاصل کرنے والے اس کے عذابوں سے بچنے والے اور وہ لوگ جو اللہ کے غضب کے مستحق ہوئے اور جو مر کر جہنم میں ٹھکانا پائیں گے کیا یہ دونوں برابر ہو سکتے ہیں ؟ قرآن کریم میں دوسری جگہ ہے کہ اللہ کی باتوں کو حق ماننے والا اور اس سے اندھا رہنے والا برابر نہیں ، اسی طرح فرمان ہے کہ جن سے اللہ کا اچھا وعدہ ہو چکا ہے اور جو اسے پانے والا ہے وہ اور دنیا کا نفع حاصل کرنے والا برابر نہیں ۔ پھر فرماتا ہے کہ بھلائی اور برائی والے مختلف درجوں پر ہیں ،(تفسیر ابن ابی حاتم:646/2) ۱؎ وہ جنت کے درجوں میں ہیں اور یہ جہنم کے طبقوں میں ، جیسا کہ دوسری جگہ ہے آیت «وَلِکُلٍّ دَرَجٰتٌ مِّمَّا عَمِلُوْا» (6-الأنعام:32) ہر ایک کے لیے ان کے اعمال کے مطابق درجات ہیں ۔ پھر فرمایا اللہ ان کے اعمال دیکھ رہا ہے اور عنقریب ان سب کو پورا بدلہ دے گا نہ نیکی ماری جائے گی اور نہ بدی بڑھائی جائے گی بلکہ عمل کے مطابق ہی جزا سزا ہو گی ۔ پھر فرماتا ہے کہ مومنوں پر اللہ کا بڑا احسان ہے کہ انہی کی جنس سے ان میں اپنا پیغمبر بھیجا تاکہ یہ اس سے بات چیت کر سکیں ، پوچھ گچھ کر سکیں، ساتھ بیٹھ اٹھ سکیں اور پوری طرح نفع حاصل کر سکیں ، جیسے اور جگہ ہے آیت «وَمِنْ اٰیٰتِہٖٓ اَنْ خَلَقَ لَکُمْ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ اَزْوَاجًا لِّتَسْکُنُوْٓا اِلَیْہَا وَجَعَلَ بَیْنَکُمْ مَّوَدَّۃً وَّرَحْمَۃً» (30-الروم:21)، یہاں بھی یہی مطلب ہے کہ تمہاری جنس سے تمہارے جوڑے اس نے پیدا کئے اور جگہ ہے آیت «قُلْ اِنَّمَآ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ یُوْحٰٓی اِلَیَّ اَنَّمَآ اِلٰــہُکُمْ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ» (18-الکہف:110) ، کہ دے کہ میں تو تم جیسا ہی انسان ہوں میری طرف وحی کی جاتی ہے کہ تم سب کا معبود ایک ہی ہے ، اور فرمان ہے «وَمَآ اَرْسَلْنَا قَبْلَکَ مِنَ الْمُرْسَلِیْنَ اِلَّآ اِنَّہُمْ لَیَاْکُلُوْنَ الطَّعَامَ وَیَمْشُوْنَ فِی الْاَسْوَاقِ» (25-الفرقان:20) یعنی تم سے پہلے جتنے بھی رسول ہم نے بھیجے وہ سب کھانا کھاتے تھے اور بازاروں میں چلتے پھرتے تھے ۔ اور جگہ ہے «وَمَا أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِکَ إِلَّا رِجَالًا نٰوحِی إِلَیْہِم مِّنْ أَہْلِ الْقُرَیٰ» (12-یوسف:109) یعنی تجھ سے پہلے بھی ہم نے مردوں کو وحی کی تھی جو بستیوں کے رہنے والے تھے اور ارشاد ہے «یٰمَعْشَرَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ اَلَمْ یَاْتِکُمْ رُسُلٌ مِّنْکُمْ یَقُصٰوْنَ عَلَیْکُمْ اٰیٰتِیْ وَیُنْذِرُوْنَکُمْ لِقَاءَ یَوْمِکُمْ ھٰذَا» (6-الأنعام:130) یعنی اے جنو اور انسانو! کیا تمہارے پاس تم میں سے ہی رسول نہیں آئے تھے ؟ الغرض یہ پورا احسان ہے کہ مخلوق کی طرف انہی میں سے رسول بھیجے گئے تاکہ وہ پاس بیٹھ اٹھ کر بار بار سوال جواب کر کے پوری طرح دین سیکھ لیں ۔ پس اللہ عزوجل فرماتا ہے کہ وہ اللہ کی آیتیں یعنی قرآن کریم انہیں پڑھاتا ہے اور اچھی باتوں کا حکم دے کر اور برائیوں سے روک کر ان کی جانوں کی پاکیزگی کرتا ہے اور شرک و جاہلیت کی ناپاکی کے اثرات سے زائل کرتا ہے اور انہیں کتاب اور سنت سکھاتا ہے ۔ اس رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے سے پہلے تو یہ صاف بھٹکے ہوئے تھے ظاہر برائی اور پوری جہالت میں تھے ۔