رَّبَّنَا اكْشِفْ عَنَّا الْعَذَابَ إِنَّا مُؤْمِنُونَ
اہل کفر کہیں گے، اے ہمارے رب ! ہم ایمان لے آئے، اس عذاب کو ہم سے ٹال دے
روز آخرت توبہ نہیں اور آیت میں ہے«وَأَنذِرِ النَّاسَ یَوْمَ یَأْتِیہِمُ الْعَذَابُ فَیَقُولُ الَّذِینَ ظَلَمُوا رَبَّنَا أَخِّرْنَا إِلَیٰ أَجَلٍ قَرِیبٍ نٰجِبْ دَعْوَتَکَ وَنَتَّبِعِ الرٰسُلَ ۗ أَوَلَمْ تَکُونُوا أَقْسَمْتُم مِّن قَبْلُ مَا لَکُم مِّن زَوَالٍ» ( 14-إبراہیم : 44 ) لوگوں کو ڈراوے کے ساتھ آگاہ کر دے جس دن ان کے پاس عذاب آئے گا اس دن گنہگار کہیں گے پروردگار ہمیں تھوڑے سے وقت تک اور ڈھیل دیدے تو ہم تیری پکار پر لبیک کہہ لیں اور تیرے رسولوں کی فرمانبرداری کر لیں ۔پس یہاں یہی کہا جاتا ہے کہ ان کے لیے نصیحت کہاں ؟ ان کے پاس میرے پیغمبر آچکے انہوں نے ان کے سامنے میرے احکام واضح طور پر رکھ دئیے لیکن ماننا تو کجا انہوں نے پرواہ تک نہ کی بلکہ انہیں جھوٹا کہا ، ان کی تعلیم کو غلط کہا اور صاف کہہ دیا کہ یہ تو سکھائے پڑھائے ہیں ، انہیں جنوں ہو گیا ہے ۔ جیسے اور آیت میں ہے اس دن انسان نصیحت حاصل کرے گا لیکن اب اس کے لیے نصیحت کہاں ہے ؟ اور جگہ فرمایا ہے «وَّقَالُوْٓا اٰمَنَّا بِہٖ ۚ وَاَنّٰی لَہُمُ التَّنَاوُشُ مِنْ مَّکَانٍۢ بَعِیْدٍ» ( 34- سبأ : 52 ) ، یعنی اس دن عذابوں کو دیکھ کر ایمان لانا سراسر بےسود ہے پھر جو ارشاد ہوتا ہے اس کے دو معنی ہو سکتے ہیں ایک تو یہ کہ اگر بالفرض ہم عذاب ہٹا لیں اور تمہیں دوبارہ دنیا میں بھیج دیں تو بھی تم پھر وہاں جا کر یہی کرو گے جو اس سے پہلے کر کے آئے ہو جیسے فرمایا « وَلَوْ رَحِمْنٰہُمْ وَکَشَفْنَا مَا بِہِمْ مِّنْ ضُرٍّ لَّـــلَجٰوْا فِیْ طُغْیَانِہِمْ یَعْمَہُوْنَ» ( 23- المؤمنون : 75 ) ، یعنی اگر ہم ان پر رحم کریں اور برائی ان سے ہٹا لیں تو پھر یہ اپنی سرکشی میں آنکھیں بند کر کے منہمک ہو جائیں گے اور جیسے فرمایا «وَلَوْ رُدٰوْا لَعَادُوْا لِمَا نُہُوْا عَنْہُ وَاِنَّہُمْ لَکٰذِبُوْنَ» ( 6- الانعام : 28 ) ، یعنی اگر یہ لوٹائے جائیں تو قطعًا دوبارہ پھر ہماری نافرمانیاں کرنے لگیں گے اور محض جھوٹے ثابت ہوں گے ۔ دوسرے معنی یہ بھی ہو سکتے ہیں کہ اگر عذاب کے اسباب قائم ہو چکنے اور عذاب آ جانے کے بعد بھی گو ہم اسے کچھ دیر ٹھہرا لیں تاہم یہ اپنی بد باطنی اور خباثت سے باز نہیں آنے کے ۔ اس سے یہ لازم آتا کہ عذاب انہیں پہنچا اور پھر ہٹ گیا جیسے قوم یونس کی حق تبارک و تعالیٰ کا فرمان ہے کہ«إِلَّا قَوْمَ یُونُسَ لَمَّا آمَنُوا کَشَفْنَا عَنْہُمْ عَذَابَ الْخِزْیِ فِی الْحَیَاۃِ الدٰنْیَا وَمَتَّعْنَاہُمْ إِلَیٰ حِینٍ » ( 10-یونس : 98 ) قوم یونس جب ایمان لائی ہم نے ان سے عذاب ہٹا لیا ۔ گویا عذاب انہیں ہونا شروع نہیں ہوا تھا ہاں اس کے اسباب موجود و فراہم ہو چکے تھے ان تک اللہ کا عذاب پہنچ چکا تھا اور اس سے یہ بھی لازم نہیں آتا کہ وہ اپنے کفر سے ہٹ گئے تھے پھر اس کی طرف لوٹ گئے ۔ «قَالَ الْمَلَأُ الَّذِینَ اسْتَکْبَرُوا مِن قَوْمِہِ لَنُخْرِجَنَّکَ یَا شُعَیْبُ وَالَّذِینَ آمَنُوا مَعَکَ مِن قَرْیَتِنَا أَوْ لَتَعُودُنَّ فِی مِلَّتِنَا ۚ قَالَ أَوَلَوْ کُنَّا کَارِہِینَ قَدِ افْتَرَیْنَا عَلَی اللہِ کَذِبًا إِنْ عُدْنَا فِی مِلَّتِکُم بَعْدَ إِذْ نَجَّانَا اللہُ مِنْہَا ۚ وَمَا یَکُونُ لَنَا أَن نَّعُودَ فِیہَا إِلَّا أَن یَشَاءَ اللہُ رَبٰنَا ۚ وَسِعَ رَبٰنَا کُلَّ شَیْءٍ عِلْمًا ۚ عَلَی اللہِ تَوَکَّلْنَا ۚ رَبَّنَا افْتَحْ بَیْنَنَا وَبَیْنَ قَوْمِنَا بِالْحَقِّ وَأَنتَ خَیْرُ الْفَاتِحِینَ » ( 7-الأعراف : 88 ، 89 ) چنانچہ حضرت شعیب علیہ السلام اور ان پر ایمان لانے والوں سے جب قوم نے کہا کہ یا تو تم ہماری بستی چھوڑ دو یا ہمارے مذہب میں لوٹ آؤ تو جواب میں اللہ کے رسول علیہ السلام نے فرمایا کہ گو ہم اسے برا جانتے ہوں ۔ جبکہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس سے نجات دے رکھی ہے پھر بھی اگر ہم تمہاری ملت میں لوٹ آئیں تو ہم سے بڑھ کر جھوٹا اور اللہ کے ذمے بہتان باندھنے والا اور کون ہو گا ؟ ظاہر ہے کہ حضرت شعیب علیہ السلام نے اس سے پہلے بھی کبھی کفر میں قدم نہیں رکھا تھا اور حضرت قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ تم لوٹنے والے ہو ۔ اس سے مطلب اللہ کے عذاب کی طرف لوٹنا ہے ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:229/11:) بڑی اور سخت پکڑ سے مراد جنگ بدر ہے سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ اور آپ رضی اللہ عنہ کے ساتھ کی وہ جماعت جو دخان کو ہو چکا مانتی ہے وہ تو ( بطشہ ) کے معنی یہی کرتی ہے بلکہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے ایک اور جماعت سے یہی منقول ہے گو یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے لیکن بظاہر تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس سے مراد قیامت کے دن کی پکڑ ہے گو بدر کا دن بھی پکڑ کا اور کفار پر سخت دن تھا ۔ ابن جریر رحمہ اللہ میں ہے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ گو سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ اسے بدر کا دن بتاتے ہیں لیکن میرے نزدیک تو اس سے مراد قیامت کا دن ہے اس کی اسناد صحیح ہے حضرت حسن بصری رحمہ اللہ اور حضرت عکرمہ رحمہ اللہ سے بھی دونوں روایتوں میں زیادہ صحیح روایت یہی ہے واللہ اعلم ۔