وَالَّذِي نَزَّلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً بِقَدَرٍ فَأَنشَرْنَا بِهِ بَلْدَةً مَّيْتًا ۚ كَذَٰلِكَ تُخْرَجُونَ
اور وہی جس نے آسمان سے ایک معلوم مقدار میں بارش برسایا، پس ہم نے اس کے ذریعہ مردہ زمین کو زندگی بخش دی (قیامت کے دن) تم سب اسی طرح زمین سے نکالے جاؤ گے
آیات ۱۱ تا ۱۴ اسی نے آسمان سے ایسے انداز سے بارش برسائی جو کفایت ہو جائے کھیتیاں اور باغات سرسبز رہیں پھلیں پھولیں اور پانی تمہارے اور تمہارے جانوروں کے پینے میں بھی آئے پھر اس مینہ سے مردہ زمین زندہ کر دی خشکی تری سے بدل گئی جنگل لہلہا اٹھے پھل پھول اگنے لگے اور طرح طرح کے خوشگوار میوے پیدا ہو گئے پھر اسی کو مردہ انسانوں کے جی اٹھنے کی دلیل بنایا ۔ اور فرمایا ’ اسی طرح تم قبروں سے نکالے جاؤ گے اس نے ہر قسم کے جوڑے پیدا کئے کھیتیاں پھل پھول ترکاریاں اور میوے وغیرہ طرح طرح کی چیزیں اس نے پیدا کر دیں ۔ ‘ مختلف قسم کے حیوانات تمہارے نفع کے لیے پیدا کئے کشتیاں سمندروں کے سفر کے لیے اور چوپائے جانور خشکی کے سفر کے لیے مہیا کر دئیے ان میں سے بہت سے جانوروں کے گوشت تم کھاتے ہو بہت سے تمہیں دودھ دیتے ہیں بہت سے تمہاری سواریوں کے کام آتے ہیں ۔ تمہارے بوجھ ڈھوتے ہیں تم ان پر سواریاں لیتے ہو اور خوب مزے سے ان پر سوار ہوتے ہو ۔ اب تمہیں چاہیئے کہ جم کر بیٹھ جانے کے بعد اپنے رب کی نعمت یاد کرو کہ اس نے کیسے کیسے طاقتور وجود تمہارے قابو میں کر دئیے ۔ اور یوں کہو کہ وہ اللہ پاک ذات والا ہے جس نے اسے ہمارے قابو میں کر دیا اگر وہ اسے ہمارا مطیع نہ کرتا تو ہم اس قابل نہ تھے نہ ہم میں اتنی طاقت تھی ۔ اور ہم اپنی موت کے بعد اسی کی طرف جانے والے ہیں اس آمدورفت سے اور اس مختصر سفر سے سفر آخرت یاد کرو ۔ جیسے کہ دنیا کے توشے کا ذکر کر کے اللہ تعالیٰ نے آخرت کے توشے کی جانب توجہ دلائی اور فرمایا ’ توشہ لے لیا کرو لیکن بہترین توشہ آخرت کا توشہ ہے ‘ اور دنیوی لباس کے ذکر کے موقعہ پر اخروی لباس کی طرف متوجہ کیا اور فرمایا ’ لباس تقوٰی افضل و بہتر ہے ـ‘ سواری پر سوار ہوتے وقت دعاؤں کی حدیثیں ”سواری پر سوار ہونے کے وقت کی دعاؤں کی حدیثیں : “ حضرت علی بن ربیعہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں سیدنا علی رضی اللہ عنہ جب اپنی سواری پر سوار ہونے لگے تو رکاب پر پیر رکھتے ہی فرمایا «بِسْمِ اللہِ » جب جم کر بیٹھ گئے تو فرمایا «اَلْحَمْدُ لِلہِ سُبْحَانَ الَّذِیْ سَخَّرَ لَنَا ہَذَا وَمَا کُنَّا لَہُ مُقْرِنِیْنَ وَإِنَّا إِلَی رَبِّنَا لَمُنْقَلِبُونَ» پھر تین مرتبہ «اَلْحَمْدُ لِلہِ» اور تین مرتبہ «اﷲُ اَکْبَرُ» پھر فرمایا «سُبْحَانک لَا إِلَہ إِلَّا أَنْتَ قَدْ ظَلَمْت نَفْسِی فَاغْفِرْ لِی» پھر ہنس دئیے ۔ میں نے پوچھا امیر المؤمنین آپ ہنسے کیوں ؟ فرمایا ” میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سب کچھ کیا پھر ہنس دئیے تو میں نے بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہی سوال کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ { جب بندے کے منہ سے اللہ تعالیٰ سنتا ہے کہ وہ کہتا ہے «رَبّ اِغْفِرْ لِی» میرے رب مجھے بخش دے تو وہ بہت ہی خوش ہوتا ہے اور فرماتا ہے میرا بندہ جانتا ہے کہ میرے سوا کوئی گناہوں کو بخش نہیں سکتا ۔} ۱؎ (سنن ابوداود:2602،قال الشیخ الألبانی:صحیح) یہ حدیث ابوداؤد ترمذی نسائی اور مسند احمد میں بھی ہے ۔ امام ترمذی رحمہ اللہ اسے حسن صحیح بتلاتے ہیں ۔ اور حدیث میں ہے کہ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کو اپنی سواری پر اپنے پیچھے بٹھایا ٹھیک جب بیٹھ گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ «اﷲُ اَکْبَرُ» کہا تین مرتبہ «سُبْحَانَ اللہ» اور ایک مرتبہ «لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ» کہا پھر اس پر چت لیٹنے کی طرح ہو کر ہنس دئیے اور عبداللہ رضی اللہ عنہ کی طرف متوجہ ہو کر فرمانے لگے ” جو شخص کسی جانور پر سوار ہو کر اس طرح کرے جس طرح میں نے کیا تو اللہ عزوجل اس کی طرف متوجہ ہو کر اسی طرح ہنس دیتا ہے جس طرح میں تیری طرف دیکھ کر ہنسا ۔ } ۱؎ (مسند احمد:330/1:ضعیف) سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب کبھی اپنی سواری پر سوار ہوتے تین مرتبہ تکبیر کہہ کر ان دونوں آیات قرآنی کی تلاوت کرتے پھر یہ دعا مانگتے « اللہُمَّ إِنِّی أَسْأَلک فِی سَفَرِی ہَذَا الْبِرّ وَالتَّقْوَی وَمِنْ الْعَمَل مَا تَرْضَی اللہُمَّ ہَوِّنْ عَلَیْنَا السَّفَر وَاطْوِ لَنَا الْبَعِید اللہُمَّ أَنْتَ الصَّاحِب فِی السَّفَر وَالْخَلِیفَۃ فِی الْأَہْل اللہُمَّ اِصْحَبْنَا فِی سَفَرنَا وَاخْلُفْنَا فِی أَہْلنَا» یا اللہ میں تجھ سے اپنے اس سفر میں نیکی اور پرہیزگاری کا طالب ہوں اور ان اعمال کا جن سے تو خوش ہو جائے اے اللہ ہم پر ہمارا سفر آسان کر دے اور ہمارے لیے دوری کو لپیٹ لے پروردگار تو ہی سفر کا ساتھی اور اہل و عیال کا نگہبان ہے میرے معبود ہمارے سفر میں ہمارا ساتھ دے اور ہمارے گھروں میں ہماری جانشینی فرما ۔ اور جب آپ سفر سے واپس گھر کی طرف لوٹتے تو فرماتے «آیِبُونَ تَائِبُونَ إِنْ شَاءَ اللَّہ عَابِدُونَ لِرَبِّنَا حَامِدُونَ» یعنی واپس لوٹنے والے توبہ کرنے والے ان شاءاللہ عبادتیں کرنے والے اپنے رب کی تعریفیں کرنے والے ۔ } ۱؎ (صحیح مسلم:1342) ابو لاس خزاعی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں صدقے کے اونٹوں میں سے ایک اونٹ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہماری سواری کے لیے ہمیں عطا فرمایا کہ ہم اس پر سوار ہو کر حج کو جائیں ہم نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم نہیں دیکھتے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں اس پر سوار کرائیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { سنو! ہر اونٹ کی کوہان میں شیطان ہوتا ہے تم جب اس پر سوار ہو تو جس طرح میں تمہیں حکم دیتا ہوں اللہ تعالیٰ کا نام یاد کرو پھر اسے اپنے لیے خادم بنا لو ، یاد رکھو اللہ تعالیٰ ہی سوار کراتا ہے ۔}۱؎ (مسند احمد:221/4:حسن) سیدنا ابولاس رضی اللہ عنہ کا نام محمد بن اسود بن خلف ہے ۔ مسند کی ایک اور حدیث میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { ہر اونٹ کی پیٹھ پر شیطان ہے تو تم جب اس پر سواری کرو تو اللہ کا نام لیا کرو پھر اپنی حاجتوں میں کمی نہ کرو ۔} ۱؎ (مسند احمد:494/3:حسن صحیح)