وَجَزَاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِّثْلُهَا ۖ فَمَنْ عَفَا وَأَصْلَحَ فَأَجْرُهُ عَلَى اللَّهِ ۚ إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ
اور برائی کا بدلہ (٢٥) اسی کے برابر ہونا چاہیے، پس جو معاف کر دے، اور اصلاح کرلے اس کا اجر اللہ کے ذمے ہے، وہ بے شک ظالموں کو پسند نہیں کرتا ہے
برائی کا بدلہ لینا جائز ہے ارشاد ہوتا ہے کہ برائی کا بدلہ لینا جائز ہے ۔ جیسے فرمایا «فَمَنِ اعْتَدٰی عَلَیْکُمْ فَاعْتَدُوْا عَلَیْہِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدٰی عَلَیْکُمْ ۠ وَاتَّقُوا اللّٰہَ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہَ مَعَ الْمُتَّقِیْنَ » ( 2- البقرۃ : 194 ) اور آیت میں ہے «وَاِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوْا بِمِثْلِ مَا عُوْقِبْتُمْ بِہٖ ۭوَلَیِٕنْ صَبَرْتُمْ لَہُوَ خَیْرٌ لِّلصّٰبِرِیْنَ » ( 16- النحل : 126 ) یعنی خاص زخموں کا بھی بدلہ ہے پھر اسے معاف کر دے تو وہ اس کے لیے کفارہ ہو جائے گا ۔ یہاں بھی فرمایا جو شخص معاف کر دے اور صلح و صفائی کر لے اس کا اجر اللہ کے ذمے ہے ۔ حدیث میں ہے درگذر کرنے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ بندے کی عزت اور بڑھا دیتا ہے ۔(صحیح مسلم:2588) لیکن جو بدلے میں اصل جرم سے بڑھ جائے وہ اللہ کا دشمن ہے ۔ پھر برائی کی ابتداء اسی کی طرف سے سمجھی جائے گی پھر فرماتا ہے جس پر ظلم ہو اسے بدلہ لینے میں کوئی گناہ نہیں ۔ حضرت ابن عون رحمہ اللہ فرماتے ہیں ، میں اس لفظ «انتَصَرَ» کی تفسیر کی طلب میں تھا تو مجھ سے علی بن زید بن جدعان رحمہ اللہ نے بروایت اپنی والدہ ام محمد کے جو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس جایا کرتی تھیں بیان کیا کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے ہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم گئے اس وقت سیدہ زینب رضی اللہ عنہا وہاں موجود تھیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم نہ تھا صدیقہ رضی اللہ عنہا کی طرف جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ بڑھایا تو سیدہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے اشارے سے بتایا اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ کھینچ لیا ۔ سیدہ زینب رضی اللہ عنہا نے صدیقہ رضی اللہ عنہا کو برا بھلا کہنا شروع کیا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ممانعت پر بھی خاموش نہ ہوئیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو اجازت دی کہ جواب دیں ۔ اب جو جواب ہوا تو سیدہ زینب رضی اللہ عنہا عاجز آ گئیں اور سیدھی سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے پاس گئیں اور کہا سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا تمہیں یوں یوں کہتی ہیں اور ایسا ایسا کرتی ہیں ۔ یہ سن کر سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا قسم رب کعبہ کی ! عائشہ رضی اللہ عنہا سے میں محبت رکھتا ہوں یہ تو اسی وقت واپس چلی گئیں ۔ اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے سارا واقعہ کہہ سنایا پھر سیدنا علی رضی اللہ عنہ آئے اور آپ سے باتیں کیں ۔(تفسیر ابن جریر الطبری:30729:ضعیف) یہ روایت ابن جریر میں اسی طرح ہے لیکن اس کے راوی اپنی روایتوں میں عموماً منکر حدیثیں لایا کرتے ہیں اور یہ روایت بھی منکر ہے نسائی اور ابن ماجہ میں اس طرح ہے کہ سیدہ زینب رضی اللہ عنہا غصہ میں بھری ہوئی بلا اطلاع سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر چلی آئیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے صدیقہ رضی اللہ عنہا کی نسبت کچھ کہا پھر عائشہ سے لڑنے لگیں لیکن مائی صاحبہ نے خاموشی اختیار کی جب وہ بہت کہہ چکیں تو آپ نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا تو اپنا بدلہ لے لے پھر جو صدیقہ رضی اللہ عنہا نے جواب دینے شروع کئے تو سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کا تھوک خشک ہو گیا ۔ کوئی جواب نہ دے سکیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے سے وہ صدمہ مٹ گیا ۔(سنن ابن ماجہ:1981،قال الشیخ الألبانی:صحیح) حاصل یہ ہے کہ مظلوم ظالم کو جواب دے اور اپنا بدلہ لے لے ۔ بزار میں ہے ظالم کے لیے جس نے بد دعا کی اس نے بدلہ لے لیا ۔ (سنن ترمذی:3552،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) یہی حدیث ترمذی میں ہے لیکن اس کے ایک راوی میں کچھ کلام ہے پھر فرماتا ہے حرج و گناہ ان پر ہے جو لوگوں پر ظلم کریں اور زمین میں بلا وجہ شرو فساد کریں ۔