وَمَا تَفَرَّقُوا إِلَّا مِن بَعْدِ مَا جَاءَهُمُ الْعِلْمُ بَغْيًا بَيْنَهُمْ ۚ وَلَوْلَا كَلِمَةٌ سَبَقَتْ مِن رَّبِّكَ إِلَىٰ أَجَلٍ مُّسَمًّى لَّقُضِيَ بَيْنَهُمْ ۚ وَإِنَّ الَّذِينَ أُورِثُوا الْكِتَابَ مِن بَعْدِهِمْ لَفِي شَكٍّ مِّنْهُ مُرِيبٍ
اور ان لوگوں نے ان کے پاس صحیح دین کا علم آجانے کے بعد، محض آپس کے بغض و عناد کی وجہ سے اختلاف (١٠) کیا، اور اگر آپ کے رب کی طرف سے، ان کے بارے میں وقت مقرر تک تاخیر کا فیصلہ نہ ہوچکا ہوتا، تو ان کے درمیان فیصلہ کردیا گیا ہوتا، اور جو لوگ گذشتہ کافروں کے بعد اللہ کی کتاب (یعنی قرآن) کے وارث بنائے گئے (یعنی یہود و نصاریٰ یا کفار قریش) وہ لوگ اس کتاب کے بارے میں بڑے گہرے شک میں پڑے ہیں
آیت ۱۴ جب ان کے پاس حق آ گیا حجت ان پر قائم ہو چکی ۔ اس وقت وہ آپس میں ضد اور بحث کی بنا پر مختلف ہو گئے ۔ اگر قیامت کا دن حساب کتاب اور جزا سزا کے لیے مقرر شدہ نہ ہوتا تو ان کے ہر بد عمل کی سزا انہیں یہیں مل جایا کرتی ۔ پھر فرماتا ہے کہ یہ گزشتہ جو پہلوں سے کتابیں پائے ہوئے ہیں ۔ یہ صرف تقلیدی طور پر مانتے ہیں اور ظاہر ہے کہ مقلد کا ایمان شک شبہ سے خالی نہیں ہوتا ۔ انہیں خود یقین نہیں دلیل و حجت کی بناء پر ایمان نہیں ، بلکہ یہ اپنے پیشروؤں کے جو حق کے جھٹلانے والے تھے مقلد ہیں ۔