إِلَيْهِ يُرَدُّ عِلْمُ السَّاعَةِ ۚ وَمَا تَخْرُجُ مِن ثَمَرَاتٍ مِّنْ أَكْمَامِهَا وَمَا تَحْمِلُ مِنْ أُنثَىٰ وَلَا تَضَعُ إِلَّا بِعِلْمِهِ ۚ وَيَوْمَ يُنَادِيهِمْ أَيْنَ شُرَكَائِي قَالُوا آذَنَّاكَ مَا مِنَّا مِن شَهِيدٍ
قیامت کا علم (٣١) اسی کی طرف لوٹا دیا جاتا ہے، اور کوئی پھل شگوفوں سے نہیں نکلتا، اور کسی مادہ کو حمل نہیں قرار پاتا، اور نہ کوئی مادہ بچہ جنتی ہے، مگر اللہ کو ان تمام باتوں کا علم ہوتا ہے، اور جس دن وہ مشرکوں کو پکارے گا اور پوچھے گا کہ کہاں ہیں میرے شرکاء وہ کہیں گے، ہم نے تو تجھے بتا دیا ہے کہ ہم میں سے کوئی اس کی گواہی دینے والا نہیں ہے
علم الٰہی کی وسعتیں اللہ تبارک وتعالیٰ فرماتا ہے کہ ’ قیامت کب آئے گی ؟ اس کا علم اس کے سوا اور کسی کو نہیں ‘ ۔ { تمام انسانوں کے سردار محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے جب فرشتوں کے سرداروں میں سے ایک سردار یعنی جبرائیل علیہ السلام نے قیامت کے آنے کا وقت پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ { جس سے پوچھا جاتا ہے وہ بھی پوچھنے والے سے زیادہ جاننے والا نہیں } } ۔۱؎ (صحیح بخاری:50) قرآن کریم کی ایک آیت میں ہے «اِلٰی رَبِّکَ مُنْتَہٰہَا» ۱؎ (79-النازعات:44) یعنی ’ قیامت کب ہو گی ؟ اس کے علم کا مدار تیرے رب کی طرف ہی ہے ‘ ۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ جل شانہ نے اور جگہ فرمایا آیت «لَا یُجَلِّیْہَا لِوَقْتِہَآ اِلَّا ہُوَ ۂ ثَقُلَتْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ لَا تَاْتِیْکُمْ اِلَّا بَغْتَۃً یَسْــــَٔـلُوْنَکَ کَاَنَّکَ حَفِیٌّ عَنْہَا قُلْ اِنَّمَا عِلْمُہَا عِنْدَ اللّٰہِ وَلٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ» ۱؎ (7-الاعراف:187) مطلب یہی ہے کہ ’ قیامت کے وقت کو اللہ کے سوا اور کوئی نہیں جانتا ‘ ۔ پھر فرماتا ہے کہ ’ ہر چیز کو اس اللہ کا علم گھیرے ہوئے ہے یہاں تک کہ جو پھل شگوفہ سے کھل کر نکلے ‘ ، « اللہُ یَعْلَمُ مَا تَحْمِلُ کُلٰ أُنثَیٰ وَمَا تَغِیضُ الْأَرْحَامُ وَمَا تَزْدَادُ وَکُلٰ شَیْءٍ عِندَہُ بِمِقْدَارٍ» ۱؎ (13-الرعد:8) ’ جس عورت کو حمل رہے جو بچہ اسے ہو یہ سب اس کے علم میں ہے ۔ زمین و آسمان کا کوئی ذرہ اس کے وسیع علم سے باہر نہیں ‘ ۔ جیسے فرمایا آیت «لَا یَعْزُبُ عَنْہُ مِثْـقَالُ ذَرَّۃٍ فِی السَّمٰوٰتِ وَلَا فِی الْاَرْضِ وَلَآ اَصْغَرُ مِنْ ذٰلِکَ وَلَآ اَکْبَرُ اِلَّا فِیْ کِتٰبٍ مٰبِیْنٍ» ۱؎ (34-سبأ:3) ایک اور آیت میں ہے «وَمَا تَسْقُطُ مِنْ وَّرَقَۃٍ اِلَّا یَعْلَمُہَا وَلَا حَبَّۃٍ فِیْ ظُلُمٰتِ الْاَرْضِ وَلَا رَطْبٍ وَّلَا یَابِسٍ اِلَّا فِیْ کِتٰبٍ مٰبِیْنٍ » ۱؎ (6-الانعام:59) یعنی ’ جو پتہ جھڑتا ہے اسے بھی وہ جانتا ہے ‘ ۔ «وَ اللہُ خَلَقَکُم مِّن تُرَابٍ ثُمَّ مِن نٰطْفَۃٍ ثُمَّ جَعَلَکُمْ أَزْوَاجًا وَمَا تَحْمِلُ مِنْ أُنثَیٰ وَلَا تَضَعُ إِلَّا بِعِلْمِہِ وَمَا یُعَمَّرُ مِن مٰعَمَّرٍ وَلَا یُنقَصُ مِنْ عُمُرِہِ إِلَّا فِی کِتَابٍ إِنَّ ذٰلِکَ عَلَی اللہِ یَسِیرٌ» ۱؎ (35-فاطر:11) ’ ہر مادہ کو جو حمل رہتا ہے اور رحم جو کچھ گھٹاتے بڑھاتے رہتے ہیں اللہ خوب جانتا ہے اس کے پاس ہر چیز کا اندازہ ہے ۔ جس قدر عمریں گھٹتی بڑھتی ہیں وہ بھی کتاب میں لکھی ہوئی ہیں ایسا کوئی کام نہیں جو اللہ پر مشکل ہو ‘ ۔ قیامت والے دن مشرکوں سے تمام مخلوق کے سامنے اللہ تعالیٰ سوال کرے گا کہ ’ جنہیں تم میرے ساتھ پرستش میں شریک کرتے تھے وہ آج کہاں ہیں ؟‘ وہ جواب دیں گے کہ تو ہمارے بارے میں علم رکھتا ہے ۔ آج تو ہم میں سے کوئی بھی اس کا اقرار نہ کرے گا کہ تیرا کوئی شریک بھی ہے ، قیامت والے ان کے معبودان باطل سب گم ہو جائیں گے کوئی نظر نہ آئے گا جو انہیں نفع پہنچا سکے ۔ اور یہ خود جان لیں گے کہ آج اللہ کے عذاب سے چھٹکارے کی کوئی صورت نہیں یہاں ظن یقین کے معنی میں ہے ۔ قرآن کریم کی اور آیت میں اس مضمون کو اس طرح بیان کیا گیا ہے آیت «وَرَاَ الْمُجْرِمُوْنَ النَّارَ فَظَنٰوْٓا اَنَّہُمْ مٰوَاقِعُوْہَا وَلَمْ یَجِدُوْا عَنْہَا مَصْرِفًا » ۱؎ (18-الکہف:53) یعنی ’ گنہگار لوگ جہنم دیکھ لیں گے ۔ اور انہیں یقین ہو جائے گا کہ وہ اس میں گرنے والے ہیں اور اس سے بچنے کی کوئی راہ نہ پائیں گے ‘ ۔