سورة فصلت - آیت 30

إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَائِكَةُ أَلَّا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنتُمْ تُوعَدُونَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

بے شک جن لوگوں نے کہا کہ ہمارے رب (٢٠) اللہ ہے، پھر اس (عقیدہ توحید اور عمل صالح) پر جمے رہے، ان پر فرشتے اترتے ہیں اور کہتے ہیں کہ تم نہ ڈرو اور غم نہ کرو، اور اس جنت کی خوشخبری سن لو جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا

ابن کثیر - حافظ عماد الدین ابوالفداء ابن کثیر صاحب

اسقامت اور اس کا انجام جن لوگوں نے زبانی اللہ تعالیٰ کے رب ہونے کا یعنی اس کی توحید کا اقرار کیا ۔ پھر اس پر جمے رہے یعنی فرمان الٰہی کے ماتحت اپنی زندگی گزاری ۔ چنانچہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تلاوت فرما کر وضاحت کی کہ بہت لوگوں نے اللہ کے رب ہونے کا اقرار کر کے پھر کفر کر لیا ۔ جو مرتے دم تک اس بات پر جما رہا وہ ہے جس نے اس پر استقامت کی } ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:3250،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے سامنے جب اس آیت کی تلاوت ہوئی تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ” اس سے مراد کلمہ پڑھ کر پھر کبھی بھی شرک نہ کرنے والے ہیں ۔ “ ایک روایت میں ہے کہ خلیفتہ المسلمین رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ لوگوں سے اس آیت کی تفسیر پوچھی تو انہوں نے کہا کہ استقامت سے مراد گناہ نہ کرنا ہے آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ” تم نے اسے غلط سمجھایا ۔ اس سے مراد اللہ کی الوہیت کا اقرار کر کے پھر دوسرے کی طرف کبھی بھی التفات نہ کرنا ہے “ ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے سوال ہوتا ہے کہ قرآن میں حکم اور جزا کے لحاظ سے سب سے زیادہ آسان آیت کون سی ہے ؟ آپ رضی اللہ عنہ نے اس آیت کی تلاوت کی کہ ” توحید اللہ پر تا عمر قائم رہنا “ ۔ سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے منبر پر اس آیت کی تلاوت کر کے فرمایا ” واللہ وہ لوگ ہیں جو اللہ کی اطاعت پر جم جاتے ہیں اور لومڑی کی چال نہیں چلتے کہ کبھی ادھر کبھی ادھر “ ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ” فرائض اللہ کی ادائیگی کرتے ہیں “ ۔ قتادہ رحمہ اللہ یہ دعا مانگا کرتے تھے «اَللَّہُمَّ اَنْتَ رَبٰنـَا فَارْزُقْـنَا الْاِسْتِقَامَۃَ» یعنی ” اے اللہ تو ہمارا رب ہے ہمیں استقامت اور پختگی عطا فرما “ ۔ استقامت سے مراد دین اور عمل کا خلوص ابوالعالیہ رحمہ اللہ نے کہا ہے { ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ مجھے اسلام کا کوئی ایسا امر بتلائیے کہ پھر کسی سے دریافت کرنے کی ضرورت نہ رہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { زبان سے اقرار کر کہ میں اللہ پر ایمان لایا اور پھر اس پر جم جا } ۔ اس نے پھر پوچھا اچھا یہ تو عمل ہوا اب بچوں کس چیز سے ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زبان کی طرف اشارہ فرمایا } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:38) امام ترمذی رحمہ اللہ اسے حسن صحیح بتلاتے ہیں ۔ ان کے پاس ان کی موت کے وقت فرشتے آتے ہیں اور انہیں بشارتیں سناتے ہیں کہ تم اب آخرت کی منزل کی طرف جا رہے ہو بے خوف رہو تم پر وہاں کوئی کھٹکا نہیں ۔ تم اپنے پیچھے جو دنیا چھوڑے جا رہے ہو اس پر بھی کوئی غم و رنج نہ کرو ۔ تمہارے اہل و عیال ، مال و متاع کی دین و دیانت کی حفاظت ہمارے ذمے ہے ۔ ہم تمہارے خلیفہ ہیں ۔ تمہیں ہم خوشخبری سناتے ہیں کہ تم جنتی ہو تمہیں سچا اور صحیح وعدہ دیا گیا تھا وہ پورا ہو کر رہے گا ۔ پس وہ اپنے انتقال کے وقت خوش خوش جاتے ہیں کہ تمام برائیوں سے بچے اور تمام بھلائیاں حاصل ہوئیں ۔ حدیث میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { مومن کی روح سے فرشتے کہتے ہیں اے پاک روح جو پاک جسم میں تھی چل اللہ کی بخشش انعام اور اس کی نعمت کی طرف ۔ چل اس اللہ کے پاس جو تجھ پر ناراض نہیں } } ۔۱؎ (مسند احمد:287/4:صحیح) یہ بھی مروی ہے کہ جب مسلمان اپنی قبروں سے اٹھیں گے اسی وقت فرشتے ان کے پاس آئیں گے اور انہیں بشارتیں سنائیں گے ۔ حضرت ثابت رحمہ اللہ جب اس سورت کو پڑھتے ہوئے اس آیت تک پہنچے تو ٹھہر گئے اور فرمایا ” ہمیں یہ خبر ملی ہے کہ مومن بندہ جب قبر سے اٹھے گا تو وہ دو فرشتے جو دنیا میں اس کے ساتھ تھے اس کے پاس آتے ہیں اور اس سے کہتے ہیں ڈر نہیں گھبرا نہیں غمگین نہ ہو تو جنتی ہے خوش ہو جا تجھ سے اللہ کے جو وعدے تھے پورے ہوں گے “ ۔ غرض خوف امن سے بدل جائے گا آنکھیں ٹھنڈی ہوں گی دل مطمئن ہو جائے گا ۔ قیامت کا تمام خوف دہشت اور وحشت دور ہو جائے گی ۔ اعمال صالحہ کا بدلہ اپنی آنکھوں دیکھے گا اور خوش ہو گا ۔ الحاصل موت کے وقت قبر میں اور قبر سے اٹھتے ہوئے ہر وقت ملائکہ رحمت اس کے ساتھ رہیں گے اور ہر وقت بشارتیں سناتے رہیں گے ، ان سے فرشتے یہ بھی کہیں گے کہ زندگانی دنیا میں بھی ہم تمہارے رفیق و ولی تھے تمہیں نیکی کی راہ سمجھاتے تھے خیر کی رہنمائی کرتے تھے ۔ تمہاری حفاظت کرتے رہتے تھے ، ٹھیک اسی طرح آخرت میں بھی ہم تمہارے ساتھ رہیں گے تمہاری وحشت و دہشت دور کرتے رہیں گے قبر میں ، حشر میں ، میدان قیامت میں ، پل صراط پر ، غرض ہر جگہ ہم تمہارے رفیق اور دوست اور ساتھی ہیں ۔ نعمتوں والی جنتوں میں پہنچا دینے تک تم سے الگ نہ ہوں گے وہاں جو تم چاہو گے ملے گا ۔ جو خواہش ہو گی پوری ہو گی ، یہ مہمانی یہ عطا یہ انعام یہ ضیافت اس اللہ کی طرف سے ہے جو بخشنے والا اور مہربانی کرنے والا ہے ۔ اس کا لطف و رحم اس کی بخشش اور کرم بہت وسیع ہے ۔ سیدنا سعید بن مسیب رضی اللہ عنہ اور سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی ملاقات ہوتی ہے تو سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں { اللہ تعالیٰ ہم دونوں کو جنت کے بازار میں ملائے “ ۔ اس پر سعید رضی اللہ عنہ نے پوچھا ” کیا جنت میں بھی بازار ہوں گے ؟ “ فرمایا ” ہاں مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی ہے کہ جنتی جب جنت میں جائیں گے اور اپنے اپنے مراتب کے مطابق درجے پائیں گے تو دنیا کے اندازے سے جمعہ والے دن انہیں ایک جگہ جمع ہونے کی اجازت ملے گی ۔ جب سب جمع ہو جائیں گے تو اللہ تعالیٰ ان پر تجلی فرمائے گا اس کا عرش ظاہر ہو گا ۔ وہ سب جنت کے باغیچے میں نور لولو یاقوت زبرجد اور سونے چاندی کے منبروں پر بیٹھیں گے ، جو نیکیوں کے اعتبار سے کم درجے کے ہیں لیکن جنتی ہونے کے اعتبار سے کوئی کسی سے کمتر نہیں وہ مشک اور کافور کے ٹیلوں پر ہوں گے لیکن اپنی جگہ اتنے خوش ہوں گے کہ کرسی والوں کو اپنے سے افضل مجلس میں نہیں جانتے ہوں گے “ ۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ” میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ کیا ہم اپنے رب کو دیکھیں گے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { ہاں ہاں دیکھو گے ۔ آدھے دن کے سورج اور چودہویں رات کے چاند کو جس طرح صاف دیکھتے ہو اسی طرح اللہ تعالیٰ کو دیکھو گے ۔ اس مجلس میں ایک ایک سے اللہ تبارک و تعالیٰ بات چیت کرے گا یہاں تک کہ کسی سے فرمائے گا ’ یاد ہے فلاں دن تم نے فلاں کا خلاف کیا تھا ؟ ‘ ،وہ کہے گا کیوں جناب باری تو تو وہ خطا معاف فرما چکا تھا پھر اس کا کیا ذکر ؟ کہے گا ہ’ اں ٹھیک ہے اسی میری مغفرت کی وسعت کی وجہ سے ہی تو اس درجے پر پہنچا ‘ ۔ یہ اسی حالت میں ہوں گے کہ انہیں ایک ابر ڈھانپ لے گا اور اس سے ایسی خوشبو برسے گی کہ کبھی کسی نے نہیں سونگھی تھی ۔ پھر رب العالمین عزوجل فرمائے گا کہ ’ اٹھو اور میں نے جو انعام و اکرام تمہارے لیے تیار کر رکھے ہیں انہیں لو ‘ ۔ پھر یہ سب ایک بازار میں پہنچیں گے جسے چاروں طرف سے فرشتے گھیرے ہوئے ہوں گے وہاں وہ چیزیں دیکھیں گے جو نہ کبھی دیکھی تھیں نہ سنی تھیں نہ کبھی خیال میں گزری تھیں ۔ جو شخص جو چیز چاہے گا لے لے گا خرید فروخت وہاں نہ ہو گی ۔ بلکہ انعام ہو گا ۔ وہاں تمام اہل جنت ایک دوسرے سے ملاقات کریں گے ایک کم درجے کا جنتی اعلیٰ درجے کے جنتی سے ملاقات کرے گا تو اس کے لباس وغیرہ کو دیکھ کر جی میں خیال کرے گا وہیں اپنے جسم کی طرف دیکھے گا کہ اس سے بھی اچھے کپڑے اس کے ہیں ۔ کیونکہ وہاں کسی کو کوئی رنج و غم نہ ہو گا ۔ اب ہم سب لوٹ کر اپنی اپنی منزلوں میں جائیں گے وہاں ہماری بیویاں ہمیں مرحبا کہیں گے اور کہیں گی کہ جس وقت آپ یہاں سے گئے تب یہ تروتازگی اور یہ نورانیت آپ میں نہ تھی لیکن اس وقت تو جمال و خوبی اور خوشبو اور تازگی بہت ہی بڑھی ہوئی ہے ۔ یہ جواب دیں گے کہ ہاں ٹھیک ہے ہم آج اللہ تعالیٰ کی مجلس میں تھے اور یقیناً ہم بہت ہی بڑھ چڑھ گئے } } ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:2549،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) مسند احمد میں ہے { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { جو اللہ کی ملاقات کو پسند کرے اللہ بھی اس سے ملنے کو چاہتا ہے اور جو اللہ کی ملاقات کو برا جانے اللہ بھی اس کی ملاقات کو ناپسند کرتا ہے } ۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم تو موت کو مکروہ جانتے ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { اس سے مراد موت کی کراہیت نہیں بلکہ مومن کی سکرات کے وقت اس کے پاس اللہ کی طرف سے خوشخبری آتی ہے جسے سن کر اس کے نزدیک اللہ کی ملاقات سے زیاہ محبوب چیز کوئی نہیں رہتی ۔ پس اللہ بھی اس کی ملاقات پسند فرماتا ہے اور فاجر یا کافر کی سکرات کے وقت جب اسے اس برائی کی خبر دی جاتی ہے جو اسے اب پہنچنے والی ہے تو وہ اللہ کی ملاقات کو مکروہ رکھتا ہے ۔ پس اللہ بھی اس کی ملاقات کو مکروہ رکھتا ہے } } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:6507) یہ حدیث بالکل صحیح ہے اور اس کی بہت سی اسنادیں ہیں ۔