وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ ۚ إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِي سَيَدْخُلُونَ جَهَنَّمَ دَاخِرِينَ
اور تمہارے رب نے کہہ دیا ہے، تم سب مجھے پکارو (٣٣) میں تمہاری دعائیں قبول کروں گا، بے شک جو لوگ کبر کی وجہ سے میری عبادت نہیں کرتے، وہ عنقریب ذلت و رسوائی کے ساتھ جہنم میں داخل ہوں گے
دعا کی ہدایت اور قبولیت کا وعدہ اللہ تعالیٰ تبارک و تعالیٰ کے اس احسان پر قربان جائیں کہ وہ ہمیں دعا کی ہدایت کرتا ہے اور قبولیت کا وعدہ فرماتا ہے ۔ امام سفیان ثوری رحمہ اللہ اپنی دعاؤں میں فرمایا کرتے تھے اے وہ اللہ جسے وہ بندہ بہت ہی پیارا لگتا ہے جو بکثرت اس سے دعائیں کیا کرے ۔ اور وہ بندہ اسے سخت برا معلوم ہوتا ہے جو اس سے دعا نہ کرے ۔ اے میرے رب یہ صفت تو صرف تیری ہی ہے ۔ شاعر کہتا ہے «اللہ یغضب ان ترکت سوالہ وبنی ادم حین یسال یغضب» یعنی اللہ تعالیٰ کی شان یہ ہے کہ جب تو اس سے نہ مانگے تو وہ ناخوش ہوتا ہے اور انسان کی یہ حالت ہے کہ اس سے مانگو تو وہ روٹھ جاتا ہے ۔ حضرت کعب احبار رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس امت کو تین چیزیں ایسی دی گئی ہیں کہ ان سے پہلے کی کسی امت کو نہیں دی گئیں بجز نبی علیہ السلام کے ۔ دیکھو ہر نبی علیہ السلام کو اللہ کا فرمان یہ ہوا ہے کہ تو اپنی امت پر گواہ ہے ۔ لیکن تمام لوگوں پر گواہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں کیا ہے ۔ اگلے نبیوں سے کہا جاتا تھا کہ تجھ پر دین میں حرج نہیں ۔ لیکن اس امت سے فرمایا گیا کہ تمہارے دین میں تم پر کوئی حرج نہیں ہر نبی علیہ السلام سے کہا جاتا تھا کہ مجھے پکار میں تیری پکار قبول کروں گا لیکن اس امت کو فرمایا گیا کہ تم مجھے پکارو میں تمہاری پکار قبول فرماؤں گا ۔ ( ابن ابی حاتم ) ابو یعلیٰ میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا چار خصلتیں ہیں جن میں سے ایک میرے لیے ہے ایک تیرے لیے ایک تیرے اور میرے درمیان اور ایک تیرے درمیان اور میرے دوسرے بندوں کے درمیان ۔ جو خاص میرے لیے ہے وہ تو یہ کہ صرف میری ہی عبادت کر اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کر ۔ اور جو تیرا حق مجھ پر ہے وہ یہ کہ تیرے ہر عمل خیر کا بھرپور بدلہ میں تجھے دوں گا ۔ اور جو تیرے میرے درمیان ہے وہ یہ کہ تو دعا کر اور میں قبول کیا کروں ۔ اور چوتھی خصلت جو تیرے اور میرے اور دوسرے بندوں کے درمیان ہے وہ یہ کہ تو ان کیلئے وہ چاہ جو اپنے لیے پسند رکھتا ہے ۔(مسند ابویعلیٰ:2757:ضعیف) مسند احمد میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ دعا عین عبادت ہے پھر آپ نے یہی آیت تلاوت فرمائی ۔(مسند احمد:267/4:صحیح) یہ حدیث سنن میں بھی ہے امام ترمذی اسے حسن صحیح کہتے ہیں ۔ (سنن ترمذی:2969،قال الشیخ الألبانی:صحیح) ابن حبان اور حاکم بھی اسے اپنی صحیح میں لائے ہیں ۔ مسند میں ہے جو شخص اللہ سے دعا نہیں کرتا اللہ اس پر غضب ناک ہوتا ہے ۔ (مسند احمد:443/2:صحیح) سیدنا محمد بن مسلمہ انصاری رضی اللہ عنہ کی موت کے بعد ان کی تلوار کے درمیان میں سے ایک پرچہ نکلا جس میں تحریر تھا کہ تم اپنے رب کی رحمتوں کے مواقع کو تلاش کرتے رہو بہت ممکن ہے کہ کسی ایسے وقت تم دعائے خیر کرو کہ اس وقت رب کی رحمت جوش میں ہو اور تمہیں وہ سعادت مل جائے جس کے بعد کبھی بھی حسرت و افسوس نہ کرنا پڑے ۔ [ الرامھرمزی فئ المحدث الفاصل بین الراوی والواعی(ص:497)،(برقم:615:ضعیف] آیت میں عبادت سے مراد دعا اور توحید ہے ۔ مسند احمد میں ہے کہ قیامت کے دن متکبر لوگ چونٹیوں کی شکل میں جمع کئے جائیں گے ۔ چھوٹی سے چھوٹی چیز بھی ان کی اوپر ہو گی انہیں بولس نامی جہنم کے جیل خانے میں ڈالا جائے گا اور بھڑکتی ہوئی سخت آگ ان کے سروں پر شعلے مارے گی ۔ انہیں جہنمیوں کا لہو پیپ اور پاخانہ پیشاب پلایا جائے گا ۔(مسند احمد:179/2:صحیح) ابن ابی حاتم میں ایک بزرگ فرماتے ہیں میں ملک روم میں کافروں کے ہاتھوں میں گرفتار ہو گیا تھا ایک دن میں نے سنا کہ ہاتف غیب ایک پہاڑ کی چوٹی سے بہ آواز بلند کہہ رہا ہے ۔ اے اللہ ! اس پر تعجب ہے جو تجھے پہچانتے ہوئے تیرے سوا دوسرے کی ذات سے امیدیں وابستہ رکھتا ہے ۔ اے اللہ ! اس پر بھی تعجب ہے جو تجھے پہچانتے ہوئے اپنی حاجتیں دوسروں کے پاس لے جاتا ہے ۔ پھر ذرا ٹھہر کر ایک پر زور آواز اور لگائی اور کہا پورا تعجب اس شخص پر ہے جو تجھے پہچانتے ہوئے دوسرے کی رضا مندی حاصل کرنے کیلئے وہ کام کرتا ہے جن سے تو ناراض ہو جائے ۔ یہ سن کر میں نے بلند آواز سے پوچھا کہ تو کوئی جن ہے یا انسان ؟ جواب آیا کہ انسان ہوں ۔ تو ان کاموں سے اپنا دھیان ہٹا لے جو تجھے فائدہ نہ دیں ۔ اور ان کاموں میں مشغول ہو جاؤ جو تیرے فائدے کے ہیں ۔