وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلَائِكَةِ اسْجُدُوا لِآدَمَ فَسَجَدُوا إِلَّا إِبْلِيسَ أَبَىٰ وَاسْتَكْبَرَ وَكَانَ مِنَ الْكَافِرِينَ
اور جب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم کو سجدہ (٧٤) کرو، تو سب نے (٧٥) سجدہ کیا، مگر ابلیس (٧٦) نے انکار کردیا، اور استکبار سے کام لے، اور وہ (اللہ کے علم میں) کافروں (٧٧) میں سے تھا۔
آدم علیہ السلام پر اللہ تعالٰی کے احسانات حضرت آدم علیہ السلام کی اس بہت بڑی بزرگی کا ذکر کر کے اللہ تعالیٰ نے انسانوں پر اپنا بہت بڑا احسان فرمایا اور خبر دی کہ اس نے فرشتوں کو حکم دیا کہ وہ آدم علیہ السلام کو سجدہ کریں ۔ اس کی تصدیق میں بہت سی حدیثیں ہیں ایک تو حدیث شفاعت جو ابھی بیان ہوئی ۔ دوسری حدیث میں ہے کہ موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے درخواست کی کہ میری ملاقات آدم علیہ السلام سے کرا دیجئیے جو خود بھی جنت سے نکلے اور ہم سب کو بھی نکالا ۔ جب دونوں پیغمبر جمع ہوئے تو موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ تم وہ آدم علیہ السلام ہو کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں اپنے ہاتھ سے پیدا کیا اور اپنی روح تم میں بھی پھونکی اور اپنے فرشتوں سے تمہیں سجدہ کرایا(سنن ابوداود:4702 ، قال الشیخ الألبانی:حسن) ( آخر تک ) پوری حدیث عنقریب بیان ہو گی ان شاءاللہ تعالیٰ ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں ابلیس فرشتوں کے ایک قبیلہ میں سے تھا جنہیں جن کہتے تھے جو آگ کے شعلوں سے پیدا ہوئے تھے ۔ اس کا نام حارث تھا اور جنت کا خازن تھا ۔ اس قبیلے کے سوا اور فرشتے سب کے سب نوری تھے ۔ قرآن نے بھی ان جنوں کی پیدائش کا ذکر کیا ہے اور فرمایا ہے آیت «وَخَلَقَ الْجَانَّ مِنْ مَّارِجٍ مِّنْ نَّارٍ» ( 55 ۔ الرحمن : 15 ) آگ کے شعلے کی جو تیزی سے بلند ہوتے ہیں اسے مارج کہتے ہیں جس سے جن پیدا کئے گئے تھے اور انسان مٹی سے پیدا کیا گیا ۔ زمین میں پہلے جن بستے تھے ۔ انہوں نے فساد اور خون ریزی شروع کی تو اللہ تعالیٰ نے ابلیس کو فرشتوں کا لشکر دے کر بھیجا انہی کو ” جن “ کہا جاتا تھا ۔ ابلیس نے لڑ بھڑ کر مارتے اور قتل کرتے ہوئے انہیں سمندر کے جزیروں اور پہاڑوں کے دامنوں میں پہنچا دیا اور ابلیس کے دل میں یہ تکبر سما گیا کہ میں نے وہ کام کیا ہے جو کسی اور سے نہ ہو سکا ۔ چونکہ دل کی اس بدی اور اس پوشیدہ خودی کا علم صرف اللہ تعالیٰ ہی کو تھا ۔ جب پروردگار نے فرمایا کہ زمین میں خلیفہ پیدا کرنا چاہتا ہوں تو ان فرشتوں نے عرض کیا کہ ایسے کو کیوں پیدا کرتا ہے جو اگلی قوم کی طرح فساد و خونریزی کریں تو انہیں جواب دیا گیا کہ میں وہ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے یعنی ابلیس کے دل میں جو کبر و غرور ہے اس کا مجھی کو علم ہے تمہیں خبر نہیں ۔ پھر آدم علیہ السلام کی مٹی اٹھائی گئی جو چکنی اور اچھی تھی ۔ جب اس کا خمیر اٹھا تب اس سے آدم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے پیدا کیا اور چالیس دن تک وہ یونہی پتلے کی شکل میں رہے ابلیس آتا تھا اور اس پر لات مار کر دیکھتا تھا تو وہ بجتی مٹی ہوتی جیسے کوئی کھوکھلی چیز ہو پھر منہ کے سوراخ سے گھس کر پیچھے کے سوراخ سے اور اس کے خلاف آتا جاتا رہا اور کہتا رہا کہ درحقیقت یہ کوئی چیز نہیں اور اگر میں اس پر مسلط کیا گیا تو اسے برباد کر کے چھوڑ دوں گا اور اسے مجھ پر مسلط کیا گیا تو میں ہر گز تسلیم نہ کروں گا ۔ پھر جب اللہ تعالیٰ نے ان میں روح پھونکی اور وہ سر کی طرف سے نیچے کی طرف آئی تو جہاں جہاں تک پہنچتی گئی خون گوشت بنتا گیا ۔ جب ناف تک روح پہنچی تو اپنے جسم کو دیکھ کر خوش ہوئے اور فوراً اٹھنا چاہا لیکن نیچے کے دھڑ میں روح نہیں پہنچتی تھی اس لیے اٹھ نہ سکے اسی جلدی کا کا بیان اس آیت میں ہے آیت «وَکَانَ الْاِنْسَانُ عَجُوْلًا» ( 17 ۔ الاسرآء : 11 ) یعنی انسان بےصبرا اور جلد باز ہے نہ تو خوشی نہ رنج میں ۔ جب روح جسم میں پہنچی اور چھینک آئی تو کہا آیت «الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعَالَمِینَ» اللہ تعالیٰ نے جواب دیا دعا «یرحمک اللہ» پھر صرف ابلیس کے ساتھی فرشتوں سے فرمایا کہ آدم کے سامنے سجدہ کرو تو ان سب نے سجدہ کیا لیکن ابلیس کا وہ غرور و تکبر ظاہر ہو گیا اس نے نہ مانا اور سجدے سے انکار کر دیا اور کہنے لگا میں اس سے بہتر ہوں اس سے بڑی عمر والا ہوں ۔ اور اس سے قوی اور مضبوط ہوں ۔ یہ مٹی سے پیدا کیا گیا ہے اور میں آگ سے بنا ہوں اور آگ مٹی سے قوی ہے ۔ اس کے انکار پر اللہ تعالیٰ نے اسے اپنی رحمت سے ناامید کر دیا اور اسی لیے اسے ابلیس کہا جاتا ہے ۔ اس کی نافرمانی کی سزا میں اسے راندہ درگاہ شیطان بنا دیا ۔ پھر آدم علیہ السلام کو انسان جانور زمین سمندر پہاڑ وغیرہ کے نام بتا کر ان کو ان فرشتوں کے سامنے پیش کیا جو ابلیس کے ساتھی تھے اور آگ سے پیدا شدہ تھے اور ان سے فرمایا کہ اگر تم اس بات میں سچے ہو کہ میں زمین میں اسے خلیفہ نہ بناؤں تو ذرا مجھے ان چیزوں کے نام تو بتا دو ۔ جب ان فرشتوں نے دیکھا کہ ہماری اگلی بات سے الٰہ العالمین ناراض ہے تو وہ کہنے لگے کہ اللہ عزوجل تو اس بات سے پاک ہے کہ تیرے سوا کوئی اور غیب کو جانے ہماری توبہ ہے اور اقرار ہے کہ ہم غیب داں نہیں ۔ ہم تو صرف وہی جان سکتے ہیں جس کا علم تو ہمیں دیدے ۔ جیسے تو نے ان کے نام صرف آدم علیہ السلام کو ہی سکھائے ہیں ۔ اب اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام سے فرمایا کہ تم انہیں ان تمام چیزوں کے نام بتا دو چنانچہ انہوں نے بتا دئیے تو فرمایا اے فرشتو ! کیا میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ آسمان و زمین کے غیب کا جاننے والا صرف میں اکیلا ہی ہوں اور کوئی نہیں ۔ میں ہر پوشیدہ چیز کو بھی ویسا ہی جانتا ہوں جیسے ظاہر کو اور تم سب اس سے بے خبر ہو لیکن یہ قول بھی غریب ہے اور اس میں بہت سی باتیں ایسی ہیں جن میں خامیاں ہیں ہم اگر انہیں الگ الگ بیان کریں تو مضمون بہت بڑھ جائے گا اور سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما تک اس اثر کی سند بھی وہی ہے جس سے ان کی مشہور تفسیر مروی ہے ۔ ایک اور حدیث میں بھی اسی طرح مروی ہے جس کے متن میں کچھ کمی زیادتی بھی ہے اور اس میں یہ بھی ہے کہ زمین کی مٹی لینے کے لیے جب جبرائیل علیہ السلام گئے تو زمین نے کہا کہ میں اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتی ہوں کہ تو مجھ میں سے کچھ گھٹائے وہ واپس چلے گئے پھر ملک الموت کو بھیجا ۔ زمین نے ان سے بھی یہی کہا لیکن انہوں نے جواب دیا کہ میں بھی اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آتا ہوں کہ میں اللہ کا حکم پورا کئے بغیر واپس چلا جاؤں چنانچہ انہوں نے تمام روئے زمین سے ایک ایک مٹھی مٹی لی ۔ چونکہ مٹی کا رنگ کہیں سرخ تھا کہیں سفید کہیں سیاہ اسی وجہ سے انسانوں کی رنگتیں بھی طرح طرح کی ہوئیں لیکن یہ روایت بھی بنو اسرائیل کی روایات سے ماخوذ ہے غالباً اس میں بہت سی باتیں نیچے کے لوگوں کی ملائی گئی ہیں ۔ صحابی کا بیان ہی نہیں اگر صحابی کا قول بھی ہو تو بھی انہوں نے بعض اگلی کتابوں سے لیا ہو گا ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» تعارف ابلیس حاکم اپنی مستدرک میں بہت سی ایسی روایتیں لائے ہیں اور ان کی سند کو بخاری سے مشروط کیا ہے ۔ (مستدرک حاکم:261/2:صحیح) مقصد یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو حکم دیا کہ تم آدم کو سجدہ کرو تو اس خطاب میں ابلیس بھی داخل تھا اس لیے کہ گو وہ ان میں سے نہ تھا لیکن ان ہی جیسا اور ان ہی جیسے کام کرنے والا تھا اس لیے اس خطاب میں داخل تھا اور پھر نافرمانی کی سزا بھگتی ۔ اس کی تفصیل ان شاءاللہ تعالیٰ آیت «إِلَّا إِبْلِیسَ کَانَ مِنَ الْجِنِّ» ( 18-الکہف : 50 ) کی تفسیر میں آئے گی ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں نافرمانی سے پہلے وہ فرشتوں میں تھا ۔ عزازیل اس کا نام تھا زمین پر اس کی رہائش تھی اجتہاد اور علم میں بہت بڑا تھا اور اسی وجہ سے دماغ میں رعونت تھی اور اس کی جماعت کا اور اس کا تعلق جنوں سے تھا ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:502/1) اس کے چار پر تھے ۔ جنت کا خازن تھا زمین اور آسمان دونوں کا سلطان تھا ۔ حسن فرماتے ہیں ابلیس کبھی فرشتہ نہ تھا اس کی اصل جنات سے ہے جیسے کہ آدم علیہ السلام کی اصل انس سے ہے اس کی اسناد صحیح ہے ۔ عبدالرحمٰن بن زید بن اسلم اور شہر بن حوشب رحمہ اللہ علیہما کا بھی یہی قول ہے ۔ سعد بن مسعود رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ فرشتوں نے جنات کو جب مارا تب اسے قید کیا تھا اور آسمان پر لے گئے تھے وہاں کی عبادت کی وجہ سے رہ پڑا ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے یہ بھی مروی ہے کہ پہلے ایک مخلوق کو اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا انہیں آدم کو سجدہ کرنے کو کہا ۔ انہوں نے انکار کیا جس پر وہ جلا دئیے گئے پھر دوسری مخلوق پیدا کی ان کا بھی یہی حشر ہوا پھر تیسری مخلوق پیدا کی انہوں نے تعمیل ارشاد کی لیکن یہ اثر بھی غریب ہے اور اس کی اسناد بھی تقریباً غیر صحیح ہے ۔ اس میں ایک راوی مبہم ہے اس وجہ سے یہ روایت قابل حجت نہیں کافرین سے مراد نافرمان ہے ۔ ابلیس کی ابتداء آفرینش ہی کفر و ضلالت پر تھی کچھ دن ٹھیک ٹھاک رہا لیکن پھر اپنی اصلیت پر آ گیا ۔ سجدہ کرنے کا حکم بجا لانا اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور آدم علیہ السلام کا اکرام تھا ۔ بعض لوگوں کا قول ہے کہ یہ سجدہ سلام اور عزت و اکرام کا تھا جیسے کہ یوسف علیہ السلام کے بارے میں فرمان ہے ۔ کہ انہوں نے اپنے ماں باپ کو تخت پر بٹھا لیا اور سب کے سب سجدہ میں گر پڑے اور یوسف علیہ السلام نے فرمایا ابا جان یہی میرے اس خواب کی تعبیر ہے جسے میرے رب نے سچا کر دکھایا ۔ (12-یوسف:100) اگلی امتوں میں سجدہ تعظیم جائز تھا لیکن ہمارے دین میں یہ منسوخ ہو گیا ۔ سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے شامیوں کو اپنے سرداروں اور علماء کے سامنے سجدہ کرتے ہوئے دیکھا تھا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے گزارش کی کہ یا رسول اللہ ! صلی اللہ علیہ وسلم آپ اس کے زیادہ حقدار ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سجدہ کیا جائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر میں کسی انسان کو کسی انسان کے سامنے سجدہ کرنے کی اجازت دینے والا ہوتا تو عورتوں کو حکم دیتا کہ وہ اپنے خاوندوں کو سجدہ کریں کیونکہ ان کا ان پر بہت بڑا حق ہے ۔ (سنن ابن ماجہ:1852 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح) امام رازی رحمہ اللہ نے اسی کو ترجیح دی ہے بعض کہتے ہیں کہ سجدہ اللہ تعالیٰ ہی کے لیے تھا ۔ آدم بطور قبلہ ( یعنی سمت ) کے تھے جیسے قرآن کریم میں ہے آیت «اَقِمِ الصَّلٰوۃَ لِدُلُوْکِ الشَّمْسِ اِلٰی غَسَقِ الَّیْلِ وَقُرْاٰنَ الْفَجْرِ» ( 17 ۔ الاسرآء : 78 ) لیکن اس میں بھی اختلاف ہے اور پہلے ہی قول کا زیادہ صحیح ہونا اچھا معلوم ہوتا ہے ۔ یہ سجدہ آدم علیہ السلام کے اکرام بڑائی احترام اور سلام کے طور پر تھا اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے ماتحت تھا کیونکہ اس کا حکم تھا جس کی بجا آوری ضروری تھی ۔ امام رازی رحمہ اللہ نے بھی اسی قول کو قوی قرار دیا ہے اور اس کے سوا دوسرے اقوال کو ضعیف قرار دیا ہے ایک تو آدم علیہ السلام کا بطور قبلہ کے ہونا جس میں کوئی بڑا شرف ظاہر نہیں ہوتا ۔ دوسرے سجدے سے مراد پست عاجز ہونا نہ کہ زمین میں ماتھا ٹکا کر حقیقی سجدہ کرنا لیکن یہ دونوں تاویلیں ضعیف ہیں ۔ قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں سب سے پہلا گناہ یہی تکبر ہے جو ابلیس سے سرزد ہوا ۔ صحیح حدیث میں ہے جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر تکبر ہو گا وہ جنت میں داخل نہ ہو گا ۔ (صحیح مسلم:91:صحیح) اسی تکبر کفرو عناد کی وجہ سے ابلیس کے گلے میں طوق لعنت پڑا اور رحمت سے مایوس ہو کر جناب باری سے دھتکارا گیا ۔ یہاں «کان صار» کے معنی میں بتلایا گیا ہے جیسے کہ آیت «فَکَانَ مِنَ الْمُغْرَقِیْنَ» (11-ہود:43) اور آیت «فَتَکُوْنَا مِنَ الظّٰلِمِیْنَ» (7-الأعراف:19) شاعروں کے شعروں میں بھی اس کا ثبوت ہے تو معنی یہ ہوئے کہ وہ کافر ہو گیا ابن فورک رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے علم میں کافروں میں سے تھا ۔ قرطبی رحمہ اللہ اسی کو ترجیح دیتے ہیں اور یہاں ایک مسئلہ بیان فرماتے ہیں کہ کسی شخص کے ہاتھ سے کچھ کرامتیں سرزد ہو جانا اس کے ولی اللہ ہونے کی دلیل نہیں گو بعض صوفی اور رافضی اس کے خلاف بھی کہتے ہیں کہ اس لیے کہ ہم اس بات کا کسی کے لیے فیصلہ نہیں کر سکتے کہ وہ ایمان ہی کی حالت میں اللہ سے جا ملے گا اسی شیطان کو دیکھئیے ولی ہی نہیں بلکہ فرشتہ بنا ہوا تھا لیکن آخر سردار کفر و کفار ہو گیا ۔ علاوہ ازیں ایسی خلاف عادت و عقل باتیں جو بظاہر کرامات نظر آتی ہیں اولیاء اللہ کے سوا اور لوگوں کے ہاتھوں سے بھی سرزد ہوتی ہیں بلکہ فاسق فاجر مشرک کافر سے بھی ظاہر ہو جاتی ہیں ۔ مثلاً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت «فَارْتَـقِبْ یَوْمَ تَاْتِی السَّمَاءُ بِدُخَانٍ مٰبِیْنٍ» (44-الدخان:10) کی آیت دل میں سوچ کر جب ابن صیاد کافر سے پوچھا کہ میں نے کیا سوچا ہے تو اس نے کہا تھا دُخْ ۔ (صحیح بخاری:1354:صحیح) بعض روایات میں ہے کہ غصہ کے وقت وہ اتنا پھول جاتا کہ اس کے جسم سے تمام راستہ رک جاتا تھا ۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے اسے مارا ۔ (صحیح مسلم:2932:صحیح) دجال کی تو ایسی بہت سی باتیں احادیث میں وارد ہیں مثلاً اس کا آسمان سے بارش برسانا زمین سے پیداوار اگانا زمین کے خزانوں کا اس کے پیچھے لگنا ایک نوجوان کو قتل کر کے پھر جلانا وغیرہ وغیرہ ۔ (صحیح بخاری:7122:صحیح) سیدنا لیث بن سعد رضی اللہ عنہما اور امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں اگر تم کسی کو پانی پر چلتے ہوئے اور ہواؤں میں اڑتے ہوئے دیکھو تو اسے ولی نہ سمجھ بیٹھو جب تک کہ اس کے تمام اعمال و افعال قرآن و حدیث کے مطابق نہ پاؤ ۔ اس سجدے کا حکم زمین و آسمان کے تمام فرشتوں کو تھا گو ایک جماعت کا قول یہ بھی ہے کہ صرف زمین کے فرشتوں کو یہ حکم تھا لیکن یہ ٹھیک نہیں قرآن کریم میں ہے آیت «فَسَجَدَ الْمَلٰیِٕکَۃُ کُلٰہُمْ اَجْمَعُوْنَ» ( 15 ۔ الحجر : 31-30 ) یعنی ابلیس کے سوا تمام فرشتوں نے سجدہ کیا پس اول تو جمع کا صیغہ لانا پھر «کلھم» سے تاکید کرنا پھر «اجمعون» کہنا اس کے بعد صرف ابلیس کا استثناء کرنا ان چاروں وجوہات سے صاف ظاہر ہے کہ یہ حکم عام تھا ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ»