اللَّهُ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ ۖ وَهُوَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ وَكِيلٌ
اللہ ہی ہر چیز کا پیدا کرنے والا (٣٨) ہے، اور وہی ہر چیز کا محافظ و نگراں ہے
اللہ تعالیٰ ہی ہر چیز کا پیدا کرنے والا اور نگران ہے تمام جاندار اور بے جان چیزوں کا خالق مالک رب اور متصرف اللہ تعالیٰ اکیلا ہی ہے ۔ ہرچیز اس کی ماتحتی میں اس کے قبضے اور اس کی تدبیر میں ہے ۔ سب کا کار ساز اور وکیل وہی ہے ۔ تمام کاموں کی باگ ڈور اسی کے ہاتھ میں ہے زمین و آسمان کی کنجیوں اور ان کے خزانوں کا وہی تنہا مالک ہے حمد و ستائش کے قابل اور ہرچیز پر قادر وہی ہے ۔ کفر و انکار کرنے والے بڑے ہی گھاٹے اور نقصان میں ہیں ۔ امام ابن ابی حاتم رحمہ اللہ نے یہاں ایک حدیث وارد کی ہے گو سند کے لحاظ سے وہ بہت ہی غریب ہے بلکہ صحت میں بھی کلام ہے لیکن تاہم ہم بھی اسے یہاں ذکر کر دیتے ہیں ۔ اس میں ہے کہ { سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس آیت کا مطلب پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { اے عثمان! [ رضی اللہ عنہ ] تم سے پہلے کسی نے مجھ سے اس آیت کا مطلب دریافت نہیں کیا } } ۔ اس کی تفسیر یہ کلمات ہیں { «لَا إِلَہ إِلَّا اللَّہ وَاَللَّہ أَکْبَر وَسُبْحَان اللَّہ وَبِحَمْدِہِ أَسْتَغْفِر اللَّہ وَلَا قُوَّۃ إِلَّا بِاَللَّہِ الْأَوَّل وَالْآخِر وَالظَّاہِر وَالْبَاطِن بِیَدِہِ الْخَیْر یُحْیِی وَیُمِیت وَہُوَ عَلَی کُلّ شَیْء قَدِیْر» ۔ اے عثمان ! جو شخص اسے صبح کو دس بار پڑھ لے تو اللہ تعالیٰ اسے چھ فضائل عطا فرماتا ہے اول تو وہ شیطان اور اس کے لشکر سے بچ جاتا ہے ، دوم اسے ایک قنطار اجر ملتا ہے ، تیسرے اس کا ایک درجہ جنت میں بلند ہوتا ہے ، چوتھی اس کا حورعین سے نکاح کرا دیا جاتا ہے ، پانچویں اس کے پاس بارہ فرشتے آتے ہیں ، چھٹے اسے اتنا ثواب دیا جاتا ہے جیسے کسی نے قرآن اور توراۃ اور انجیل و زبور پڑھی ۔ پھر اس ساتھ ہی اسے ایک قبول شدہ حج اور ایک مقبول عمرے کا ثواب ملتا ہے اور اگر اسی دن اس کا انتقال ہو جائے تو شہادت کا درجہ ملتا ہے } ۔۱؎ (مجمع الزوائد:115/10:باطل و موضوع) یہ حدیث بہت غریب ہے اور اس میں بڑی نکارت ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ” مشرکین نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ آؤ تم ہمارے معبودوں کی پوجا کرو اور ہم تمہارے رب کی پرستش کریں گے اس پر آیت «قُلْ أَفَغَیْرَ اللہِ تَأْمُرُونِّی أَعْبُدُ أَیٰہَا الْجَاہِلُونَ وَلَقَدْ أُوحِیَ إِلَیْکَ وَإِلَی الَّذِینَ مِن قَبْلِکَ لَئِنْ أَشْرَکْتَ لَیَحْبَطَنَّ عَمَلُکَ وَلَتَکُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِینَ» ۱؎ (39-الزمر:64-65) تک نازل ہوئی “ ۔ یہی مضمون اس آیت میں بھی ہے «وَلَوْ اَشْرَکُوْا لَحَبِطَ عَنْہُمْ مَّا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ» ۱؎ (6-الأنعام:88) ۔ اوپر انبیاء علیہم السلام کا ذکر ہے پھر فرمایا ہے ’ اگر بالفرض یہ انبیاء بھی شرک کریں تو ان کے تمام اعمال اکارت اور ضائع ہو جائیں ‘ ، یہاں بھی فرمایا کہ ’ تیری طرف اور تجھ سے پہلے کے تمام انبیاء [ علیہم السلام ] کی طرف ہم نے یہ وحی بھیج دی ہے کہ جو بھی شرک کرے اس کا عمل غارت ۔ اور وہ نقصان یافتہ اور زیاں کار ، پس تجھے چاہیئے کہ تو خلوص کے ساتھ اللہ وحدہ لاشریک کی عبادت میں لگا رہ اور اس کا شکر گزار رہ ۔ تو بھی اور تیرے ماننے والے مسلمان بھی ‘ ۔