وَهَلْ أَتَاكَ نَبَأُ الْخَصْمِ إِذْ تَسَوَّرُوا الْمِحْرَابَ
اور کیا آپ کو ان جھگڑنے والوں کی خبر (١٢) ہے جو دیوار پھاند کر داؤد کے عبادت خانے میں پہنچ گئے تھے
1 مفسرین نے یہاں پر ایک قصہ بیان کیا ہے لیکن اس کا اکثر حصہ بنو اسرائیل کی روایتوں سے لیا گیا ہے ۔ حدیث سے ثابت نہیں ۔ ابن ابی حاتم میں ایک حدیث ہے لیکن وہ بھی ثابت نہیں کیونکہ اس کا ایک راوی یزید رقاشی ہے گو وہ نہایت نیک شخص ہے لیکن ہے ضعیف ۔ پس اولیٰ یہ ہے کہ قرآن میں جو ہے اور جس پر یہ شامل ہے وہ حق ہے ۔ داؤد علیہ السلام کا انہیں دیکھ کر گھبرانا اس وجہ سے تھا کہ وہ اپنے تنہائی کے خاص خلوت خانے میں تھے اور پہرہ داروں کو منع کیا تھا کہ کوئی بھی آج اندر نہ آئے اور یکایک ان دونوں کو جو دیکھا تو گھبرا گئے ۔ « عزنی » الخ ، سے مطلب بات چیت میں غالب آ جانا دوسرے پر چھا جانا ہے ۔ داؤد سمجھ گئے کہ یہ اللہ کی آزمائش ہے پس وہ رکوع سجدہ کرتے ہوئے اللہ کی طرف جھک پڑے ۔ مذکور ہے کہ چالیس دن تک سجدہ سے سر نہ اٹھایا پس ہم نے اسے بخش دیا ۔ یہ یاد رہے کہ جو کام عوام کے لیے نیکیوں کے ہوتے ہیں وہی کام خواص کے لیے بعض مرتبہ بدیوں کے بن جاتے ہیں ۔ یہ آیت سجدے کی ہے یا نہیں ؟ اس کی بابت امام شافعی کا جدید مذہب تو یہ ہے کہ یہاں سجدہ ضروری نہیں یہ تو سجدہ شکر ہے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ «ص» ضروری سجدوں میں سے نہیں ہاں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس میں سجدہ کرتے ہوئے دیکھا ہے (صحیح بخاری:1069) نسائی میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں سجدہ کر کے فرمایا یہ سجدہ داؤد کا تو توبہ کے لیے تھا اور ہمارا شکر کے لیے ہے ۔ (سنن نسائی:958،قال الشیخ الألبانی:صحیح) ترمذی میں ہے کہ ایک شخص نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں نے خواب میں دیکھا گویا میں ایک درخت کے پیچھے نماز پڑھ رہا ہوں اور نماز میں میں نے سجدے کی آیت تلاوت کی اور سجدہ کیا تو میرے ساتھ اس درخت نے بھی سجدہ کیا اور میں نے سنا کہ وہ یہ دعا مانگ رہا تھا ، «اللَّہُمَّ اُکْتُبْ لِی بِہَا عِنْدک أَجْرًا وَاجْعَلْہَا لِی عِنْدک ذُخْرًا وَضَعْ بِہَا عَنِّی وِزْرًا وَاقْبَلْہَا مِنِّی کَمَا قَبِلْتہَا مِنْ عَبْدک دَاوُد » یعنی اے اللہ ! میرے اس سجدے کو تو میرے لیے اپنے پاس اجر اور خزانے کا سبب بنا اور اس سے تو میرا بوجھ ہلکا کر دے اور اسے مجھ سے قبول فرما جیسے کہ تو نے اپنے بندے داؤد کے سجدے کو قبول فرمایا ۔ سیدنا ابن عباس فرماتے ہیں میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہو کر نماز ادا کی اور سجدے کی آیت کو پڑھ کر سجدہ کیا اور اس سجدے میں وہی دعا پڑھی جو اس شخص نے درخت کی دعا نقل کی تھی ۔ (سنن ترمذی:3424،قال الشیخ الألبانی:حسن) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ اس آیت کے سجدے پر یہ دلیل وارد کرتے تھے کہ قرآن نے فرمایا ہے«وَنُوحًا ہَدَیْنَا مِن قَبْلُ ۖ وَمِن ذُرِّیَّتِہِ دَاوُودَ وَسُلَیْمَانَ» ( 6-الانعام : 84 ) اس کی اولاد میں سے داؤد سلیمان ہیں جنہیں ہم نے ہدایت کی تھی ، « أُولٰئِکَ الَّذِینَ ہَدَی اللہُ ۖ فَبِہُدَاہُمُ اقْتَدِہْ» ( 6-الانعام : 90 ) پس تو اے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کی ہدایت کی پیروی کر پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کی اقتداء کے مامور تھے اور یہ صاف ثابت ہے کہ داؤد علیہ السلام نے سجدہ کیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی یہ سجدہ کیا ۔ (صحیح بخاری:4807) سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں نے خواب میں دیکھا گویا میں سورۃ ص لکھ رہا ہوں جب آیت سجدہ تک پہنچا تو میں نے دیکھا کہ قلم اور دوات اور میرے آس پاس کی تمام چیزوں نے سجدہ کیا ۔ انہوں نے اپنا یہ خواب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا پھر آپ اس آیت کی تلاوت کے وقت برابر سجدہ کرتے رہے ۔ (مسند احمد:78/3:ضعیف) ابو داؤد میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے منبر پر سورۃ ص پڑھی اور سجدے کی آیت تک پہنچ کر منبر سے اتر کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ تک پہنچے تو لوگوں نے سجدے کی تیاری کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ تو ایک نبی کی توبہ کا سجدہ تھا لیکن میں دیکھتا ہوں کہ تم سجدہ کرنے کے لیے تیار ہو گئے ہو چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اترے اور سجدہ کیا ۔ (سنن ابوداود:1410،قال الشیخ الألبانی:صحیح ) اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہم نے اسے بخش دیا ۔ قیامت کے دن اس کی بڑی منزلت اور قدر ہو گی نبیوں اور عادلوں کا درجہ وہ پائیں گے ۔ حدیث میں ہے عادل لوگ نور کے ممبروں پر رحمن کے دائیں جانب ہوں گے ۔ اللہ کے دونوں ہاتھ دائیں ہیں ۔ یہ عادل وہ ہیں جو اپنی اہل و عیال میں اور جن کے وہ مالک ہوں عدل و انصاف کرتے ہیں ۔(صحیح مسلم:1827-18) اور حدیث میں ہے سب سے زیادہ اللہ کے دوست اور سب سے زیادہ اس کے مقرب وہ بادشاہ ہوں گے جو عادل ہوں اور سب سے زیادہ دشمن اور سب سے سخت عذاب والے وہ ہوں گے جو ظالم بادشاہ ہوں ۔ (سنن ترمذی:1329،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) مالک بن دینار رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں قیامت کے دن داؤد علیہ السلام کو عرش کے پائے کے پاس کھڑا کیا جائے گا اور اللہ تعالیٰ حکم دے گا کہ اے داؤد جس پیاری درد ناک میٹھی اور جاذب آواز سے تم میری تعریفیں دنیا میں کرتے تھے اب بھی کرو ۔ آپ فرمائیں گے باری تعالیٰ اب وہ آواز کہاں رہی ؟ اللہ فرمائے گا میں نے وہی آواز آج تمہیں پھر عطا فرمائی ۔ اب داؤد علیہ السلام اپنی دلکش اور دلربا آواز نکال کر نہایت وجد کی حالت میں اللہ کی حمد و ثناء بیان کریں گے جسے سن کر جنتی اور نعمتوں کو بھی بھول جائیں گے اور یہ سریلی آواز اور نورانی گلا انہیں سب نعمتوں سے ہٹا کر اپنی طرف متوجہ کرے گا ۔