إِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِي بِبَكَّةَ مُبَارَكًا وَهُدًى لِّلْعَالَمِينَ
بے شک (اللہ کا) پہلا گھر (69) جو لوگوں کے لیے بنایا گیا، وہ ہے جو مکہ میں ہے، اور تمام جہان والوں کے لیے باعث برکت و ہدایت ہے
ذکر بیت اللہ اور احکامات حج یعنی لوگوں کی عبادت ،قربانی ،طواف، نماز ،اعتکاف وغیرہ کے لیے اللہ تعالیٰ کا گھر ہے جس کے بانی سیدنا ابراہیم خلیل علیہ السلام ہیں ، جن کی تابعداری کا دعویٰ یہود و نصاریٰ مشرکین اور مسلمان سب کو ہے وہ اللہ کا گھر جو سب سے پہلے مکہ میں بنایا گیا ہے ، اور بلاشبہ خلیل اللہ ہی حج کے پہلے منادی کرنے والے ہیں تو پھر ان پر تعجب اور افسوس ہے جو ملت حنیفی کا دعویٰ کریں اور اس گھر کا احترام نہ کریں حج کو یہاں نہ آئیں بلکہ اپنے قبلہ اور کعبہ الگ الگ بناتے پھریں ۔ اس بیت اللہ کی بنیادوں میں ہی برکت و ہدایت ہے اور تمام جہان والوں کے لیے ہے ، سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ سب سے پہلے کون سی مسجد بنائی گئی ہے ؟ آپ نے فرمایا مسجد الحرام ، پوچھا پھر کون سی ؟ فرمایا مسجد بیت المقدس پوچھا ان دونوں کے درمیان کتنا وقت ہے ؟ فرمایا چالیس سال پوچھا پھر کون سی ؟ آپ نے فرمایا جہاں کہیں نماز کا وقت آ جائے نماز پڑھ لیا کرو ساری زمین مسجد ہے ( مسند احمد وبخاری مسلم )۔(صحیح بخاری:3366) ۱؎ سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں گھر تو پہلے بہت سے تھے لیکن خاص اللہ تعالیٰ کی عبادت کا گھر سب سے پہلا یہی ہے ، کسی شخص نے آپ سے پوچھا کہ زمین پر پہلا گھر یہی بنا ہے؟ تو آپ نے فرمایا نہیں ہاں برکتوں اور مقام ابراہیم اور امن والا گھر یہی پہلا ہے ، بیت اللہ شریف کے بنانے کی پوری کیفیت سورۃ البقرہ کی آیت «وَعَہِدْنَآ اِلٰٓی اِبْرٰہٖمَ وَاِسْمٰعِیْلَ اَنْ طَہِّرَا بَیْتِیَ لِلطَّایِٕفِیْنَ وَالْعٰکِفِیْنَ وَالرٰکَّعِ السٰجُوْدِ» (2-البقرۃ:125) ، کی تفسیر میں پہلے گزر چکی ہے وہیں ملاحظہ فرما لیجئے۔ یہاں دوبارہ بیان کرنے کی ضرورت نہیں ، سدی رحمہ اللہ کہتے ہیں سب سے پہلے روئے زمین پر یہی گھر بنا ، لیکن صحیح قول سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا ہی ہے اور وہ حدیث جو ییہقی میں ہے جس میں ہے کہ آدم و حواء نے بحکم الہ بیت اللہ بنایا اور طواف کیا اور اللہ تعالیٰ نے کہا کہ تو سب سے پہلا انسان ہے اور یہ سب سے پہلا گھر ہے یہ حدیث ابن لہیعہ کی روایت سے ہے اور وہ ضعیف راوی ہیں ، ممکن ہے یہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا اپنا قول ہو اور یرموک والے دن انہیں جو دو پورے اہل کتاب کی کتابوں کے ملے تھے انہی میں یہ بھی لکھا ہوا ہو ۔ ” مکہ“ مکہ شریف کا مشہور نام ہے چونکہ بڑے بڑے جابر شخصوں کی گردنیں یہاں ٹوٹ جاتی تھیں ہر بڑائی والا یہاں پست ہو جاتا تھا ، اس لیے اسے مکہ کہا گیا اور اس لیے بھی کہ لوگوں کی بھیڑ بھاڑ یہاں ہوتی ہے اور ہر وقت کھچا کھچ بھرا رہتا ہے اور اس لیے بھی کہ یہاں لوگ خلط ملط ہو جاتے ہیں یہاں تک کہ کبھی عورتیں آگے نماز پڑھتی ہوتی ہیں اور مرد ان کے پیچھے ہوتے ہیں اور ایسا معاملہ کہیں اور نہیں ہوتا ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں ” فج “ سے ”تنعیم“ تک مکہ ہے بیت اللہ سے بطحاء تک بکہ ہے بیت اللہ اور مسجد کو «بکہ» کہا گیا ہے ، بیت اللہ اور اس آس پاس کی جگہ کو بکہ اور باقی شہر کو مکہ بھی کہا گیا ہے ، اس کے اور بھی بہت سے نام ہیں مثلاً بیت العتیق ، بیت الحرام ، بلد الامین ، بلد المامون ، ام رحم ، ام القری ، صلاح ، عرش ، قادس ، مقدس ، ناسبہ ، ناسسہ ، حاطمہ ، راس ، کوثا البلدہ البینۃ و الکعبہ ۔ اس میں ظاہر نشانیاں ہیں جو اس کی عظمت و شرافت کی دلیل ہیں اور جن سے ظاہر ہے کہ خلیل اللہ علیہ السلام کی بناء یہی ہے اس میں مقام ابراہیم بھی ہے جس پر کھڑے ہو کر سیدنا اسماعیل علیہ السلام سے پتھر لے کر سیدنا ابراہیم علیہ السلام کعبہ کی دیواریں اونچی کر رہے تھے ، یہ پہلے تو بیت اللہ شریف کی دیوار سے لگا ہوا تھا لیکن سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی خلافت کے زمانہ میں اسے ذرا ہٹا کر مشرق رخ کر دیا تھا کہ پوری طرح طواف ہو سکے اور جو لوگ طواف کے بعد مقام ابراہیم کے پیچھے نماز پڑھتے ہیں ان کے لیے پریشانی اور بھیڑ بھاڑ نہ ہو ، اسی کی طرف نماز پڑھنے کا حکم ہوا ہے اور اس کے متعلق بھی پوری تفسیر آیت «وَاتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰہٖمَ مُصَلًّی» (2-البقرۃ:125) کی تفسیر میں پہلے گزر چکی ہے فالحمدللہ ۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں آیات بینات میں سے ایک مقام ابراہیم بھی ہے باقی اور بھی ہیں ، مجاہد فرماتے ہیں کہ خلیل اللہ کے قدموں کے نشان جو مقام ابراہیم پر تھے یہ بھی آیات بینات میں سے ہیں ، کل حرم کو اور حطیم کو اور سارے ارکان حج کو بھی مکہ امن والا رہا باپ کے قاتل کو بھی یہاں پاتے تو نہ چھیڑتے ابن عباس فرماتے ہیں بیت اللہ پناہ چاہنے والے کو پناہ دیتا ہے لیکن جگہ اور کھانا پینا نہیں دیتا اور جگہ ہے آیت « اَوَلَمْ یَرَوْا اَنَّا جَعَلْنَا حَرَمًا اٰمِنًا وَّیُتَخَطَّفُ النَّاسُ مِنْ حَوْلِہِمْ ۭ اَفَبِالْبَاطِلِ یُؤْمِنُوْنَ وَبِنِعْمَۃِ اللّٰہِ یَکْفُرُوْنَ » ( 29 ۔ العنکبوت : 67 ) ، کیا یہ نہیں دیکھتے کہ ہم نے حرم کو امن کی جگہ بنایا اور جگہ ہے آیت « فَلْیَعْبُدُوا رَبَّ ہٰذَا الْبَیْتِ الَّذِی أَطْعَمَہُم مِّن جُوعٍ وَآمَنَہُم مِّنْ خَوْفٍ » ( 106-قریش : 3 ، 4 ) ، ہم نے انہیں خوف سے امن دیا نہ صرف انسان کے لیے امن ہے بلکہ شکار کرنا بلکہ شکار کو بھگانا اسے خوف زدہ کرنا اسے اس کے ٹھکانے یا گھونسلے سے ہٹانا اور اڑانا بھی منع ہے اس کے درخت کاٹنا یہاں کی گھاس اکھیڑنا بھی ناجائز ہے اس مضمون کی بہت سی حدیثیں پورے بسط کے ساتھ آیت« وَعَہِدْنَا إِلَیٰ إِبْرَاہِیمَ وَإِسْمَاعِیلَ أَن طَہِّرَا بَیْتِیَ لِلطَّائِفِینَ وَالْعَاکِفِینَ وَالرٰکَّعِ السٰجُودِ » ( 2-البقرہ : 125 ) ، کی تفسیر میں سورۃ البقرہ میں گذر چکی ہیں ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں آیاتِ بینات میں سے ایک مقامِ ابراہیم بھی ہے باقی اور ہیں،(تفسیر ابن جریر الطبری:26/7) ۱؎ سیدنا مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ خلیل اللہ کے قدموں کے نشان جا مقامِ ابراہیم پر تھے یہ بھی آیاتِ بینات میں سے ہیں۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:27/7) ۱؎ کل حرم کو اور حطیم کو اور سارے ارکانِ حج کو بھی مقامِ ابراہیم کی تفسیر میں مفسرین نے داخل کیا ہے۔ اس میں آنے والا امن میں آجاتا ہے جاہلیت کے زمانے میں بھی مکہ امن والا رہا باپ کے قاتل کو بھی یہاں پاتے تو نہ چھیڑتے۔ ابنِ عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں بیت اللہ پناہ چاہنے والے کو پناہ دیتا ہے لیکن جگہ اور کھانا پینا نہیں دیتا۔ اور جگہ ہے «أَوَلَمْ یَرَوْا أَنَّا جَعَلْنَا حَرَمًا آمِنًا وَیُتَخَطَّفُ النَّاسُ مِنْ حَوْلِہِمْ ۚ أَفَبِالْبَاطِلِ یُؤْمِنُونَ وَبِنِعْمَۃِ اللہِ یَکْفُرُونَ» (29-العنکبوت:67)کیا ہی نہیں دیکھتے کہ ہم نے حرم کو امن کی جگہ بنایا۔ اور جگہ ہے « وَآمَنَہُم مِّنْ خَوْفٍ» (106-قریش:4) ہم نے انہیں خوف سے امن دیا ۔ نہ صرف انسان کے لیے امن ہے بلکہ شکار کرنا، بلکہ شکار کو بھگانا، اسے خوف زدہ کرنا اسے اس کے ٹھکانے یا گھونسلے سے ہٹانا اور اڑانا بھی منع ہے، اسکے درخت کاٹنا، یہاں کی گھاس اکھیڑنا بھی ناجائز ہے۔ اس مضمون کی بہت سی حدیثیں پورے بسط کے ساتھ آیت « وَعَھِدْنَا » (2-البقرۃ:125) الخ، کی تفسیر میں سورہ بقرہ میں گزر چکی ہیں ۔ مسند احمد ترمذی اور نسائی میں حدیث ہے جسے امام ترمذی نے حسن صحیح کہا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ کے بازار حرورہ میں کھڑے ہو کر فرمایا کہ اے مکہ تو اللہ تعالیٰ کو ساری زمین سے بہتر اور پیارا ہے اگر میں زبردستی تجھ سے نہ نکالا جاتا تو ہرگز تجھے نہ چھوڑتا ،(سنن ترمذی:3925،قال الشیخ الألبانی:صحیح) ۱؎ اور اس آیت کے ایک معنی یہ بھی ہیں کہ جو اس گھر میں داخل ہوا وہ جہنم سے بچ گیا ، بیہقی کی ایک مرفوع حدیث میں ہے جو بیت اللہ میں داخل ہوا وہ نیکی میں آیا اور برائیوں سے دور ہوا ، اور گناہ بخش دیا گیا (بیہقی فی السنن:158/5:ضعیف) ۱؎ لیکن اس کے ایک راوی عبداللہ بن مؤمل قوی نہیں ہیں ۔ آیت کا یہ آخری حصہ حج کی فرضیت کی دلیل ہے بعض کہتے ہیں آیت «وَاَتِمٰوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَۃَ لِلہِ فَاِنْ اُحْصِرْتُمْ فَمَا اسْتَیْسَرَ مِنَ الْہَدْی» (2-البقرۃ:196) ، والی آیت دلیل فرضیت ہے لیکن پہلی بات زیادہ واضح ہے ، کئی ایک احادیث میں وارد ہے کہ حج ارکان اسلام میں سے ایک رکن ہے ، اس کی فرضیت پر مسلمانوں کا اجماع ہے ، اور یہ بات بھی ثابت ہے کہ عمر بھر میں ایک مرتبہ استطاعت والے مسلمان پر حج فرض ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خطبہ میں فرمایا لوگو تم پر اللہ تعالیٰ نے حج فرض کیا ہے تم حج کرو ایک شخص نے پوچھا حضور کیا ہر سال ؟ آپ خاموش رہے اس نے تین مرتبہ یہی سوال کیا آپ نے فرمایا اگر میں ہاں کہ دیتا تو فرض ہو جاتا پھر بجا نہ لا سکتے میں جب خاموش رہوں تو تم کرید کر پوچھا نہ کرو تم سے اگلے لوگ اپنے انبیاء سے سوالوں کی بھرمار اور نبیوں پر اختلاف کرنے کی وجہ سے ہلاک ہو گئے میرے حکموں کو طاقت بھر بجا لاؤ ۔ اور جس چیز میں منع کروں اس سے رک جاؤ (مسند احمد:508/2:صحیح) ۱؎ ( مسند احمد ) صحیح مسلم شریف(صحیح مسلم:1337) ۱؎ کی اس حدیث شریف میں اتنی زیادتی ہے کہ یہ پوچھنے والے اقرع بن حابس رضی اللہ عنہ تھے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب یہ بھی فرمایا کہ عمر میں ایک مرتبہ فرض ہے اور پھر نفل ۔(سنن ابوداود:1721،قال الشیخ الألبانی:صحیح) ۱؎ ایک روایت میں ہے کہ اسی سوال کے بارے میں آیت «یٰٓاَیٰھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَسْــــَٔـلُوْا عَنْ اَشْیَاءَ اِنْ تُبْدَ لَکُمْ تَسُؤْکُمْ» (5-المائدۃ:101)، یعنی زیادتی سوال سے بچو نازل ہوئی (مسند احمد:113/1:صحیح) ۱؎ ( مسند احمد ) ایک اور روایت میں ہے اگر میں ہاں کہتا تو ہر سال حج واجب ہوتا تم بجا نہ لا سکتے تو عذاب نازل ہوتا (سنن ابن ماجہ:2885،قال الشیخ الألبانی:صحیح) ۱؎ ( ابن ماجہ ) ہاں حج میں تمتع کرنے کا جواز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سائل کے سوال پر ہمیشہ کے لیے جائز فرمایا تھا ،(صحیح بخاری:2505) ۱؎ ایک اور حدیث میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع میں امہات المؤمنین یعنی اپنی بیویوں سے فرمایا تھا حج ہو چکا اب گھر سے نہ نکلنا ،(سنن ابوداود:،قال الشیخ الألبانی:صحیح) ۱؎ رہی استطاعت اور طاقت سو وہ کبھی تو خود انسان کو بغیر کسی ذریعہ کے ہوتی ہے کبھی کسی اور کے واسطے سے جیسے کہ کتب احکام میں اس کی تفصیل موجود ہے ، ترمذی میں ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ حاجی کون ہے ؟ آپ نے فرمایا پراگندہ بالوں اور میلے کچیلے کپڑوں والا ایک اور نے پوچھا یا رسول اللہ کون سا حج افضل ہے ، آپ نے فرمایا جس میں قربانیاں کثرت سے کی جائیں اور لبیک زیادہ پکارا جائے ۔ ایک اور شخص نے سوال کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سبیل سے کیا مراد ہے ؟ آپ نے فرمایا توشہ بھتہ کھانے پینے کے لائق سامان خرچ اور سواری (سنن ترمذی:813،قال الشیخ الألبانی:ضعیف جدا) ۱؎ ، اس حدیث کا ایک راوی گو ضعیف ہے مگر حدیث کی متابعت اور سند بہت سے صحابیوں سے مختلف سندوں سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت «مَنِ اسْـتَـطَاعَ اِلَیْہِ سَبِیْلًا» (3-آل عمران:97) کی تفسیر میں زادو راحلہ یعنی توشہ اور سواری بتائی ہے ۔(سنن ابن ماجہ:2897،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) ۱؎ مسند کی ایک اور حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں فرض حج جلدی ادا کر لیا کرو نہ معلوم کل کیا پیش آئے ،(مسند احمد:214/1:حسن) ۱؎ ابوداؤد وغیرہ میں ہے حج کا ارادہ کرنے والے کو جلد اپنا ارادہ پورا کر لینا چاہیئے ۔(مسند احمد:225/1:حسن) ۱؎ ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں جس کے پاس تین سو درہم ہوں وہ طاقت والا ہے ، عکرمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں مراد صحت جسمانی ہے پھر فرمایا جو کفر کرے یعنی فرضیت حج کا انکار کرے ، عکرمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں جب یہ آیت اتری کہ دین اسلام کے سوا جو شخص کوئی اور دین پسند کرے اس سے قبول نہ کیا جائے گا تو یہودی کہنے لگے ہم بھی مسلمان ہیں ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر مسلمانوں پر تو حج فرض ہے تم بھی حج کرو تو وہ صاف انکار بیٹھے جس پر یہ آیت اتری کہ اس کا انکاری کافر ہے اور اللہ تعالیٰ تمام جہان والوں سے بے پرواہ ہے ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص کھانے پینے اور سواری پر قدرت رکھتا ہو اور اتنا مال بھی اس کے پاس ہو پھر حج نہ کرے تو اس کی موت یہودیت یا نصرانیت پر ہو گی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اللہ کے لیے لوگوں پر حج بیت اللہ ہے جو اس کے راستہ کی طاقت رکھیں اور جو کفر کرے تو اللہ تعالیٰ تمام جہان والوں سے بےپرواہ ہے (سنن ترمذی:812،قال الشیخ الألبانی:ضعیف)۱؎ اس کے راوی پر بھی کلام ہے ، سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں طاقت رکھ کر حج نہ کرنے والا یہودی ہو کر مرے گا یا نصرانی ہو کر ، اس کی سند بالکل صحیح ہے ( حافظ ابوبکر اسماعیلی ) (الحلیہ لابی نعیم:252/9)۱؎ مسند سعید بن منصور میں ہے کہ فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے فرمایا میرا مقصد ہے کہ میں لوگوں کو مختلف شہروں میں بھیجوں وہ دیکھیں جو لوگ باوجود مال رکھنے کے حج نہ کرتے ہوں ان پر جزیہ لگا دیں وہ مسلمان نہیں ہیں ۔