إِنَّ الْمُسْلِمِينَ وَالْمُسْلِمَاتِ وَالْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ وَالْقَانِتِينَ وَالْقَانِتَاتِ وَالصَّادِقِينَ وَالصَّادِقَاتِ وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِرَاتِ وَالْخَاشِعِينَ وَالْخَاشِعَاتِ وَالْمُتَصَدِّقِينَ وَالْمُتَصَدِّقَاتِ وَالصَّائِمِينَ وَالصَّائِمَاتِ وَالْحَافِظِينَ فُرُوجَهُمْ وَالْحَافِظَاتِ وَالذَّاكِرِينَ اللَّهَ كَثِيرًا وَالذَّاكِرَاتِ أَعَدَّ اللَّهُ لَهُم مَّغْفِرَةً وَأَجْرًا عَظِيمًا
بے شک مسلمان مردوں (28) اور مسلمان عورتوں کے لئے، اور مومن مردوں اور مومن عورتوں کے لئے، اور فرمانبردار مردوں اور فرمانبردار عورتوں کے لئے اور سچے مردوں اور سچی عورتوں کے لئے، اور صبر کرنے والے مردوں اور صبر کرنے والی عورتوں کے لئے، اور عاجزی اختیار کرنے والے مردوں اور عاجزی اختیار کرنے والی عورتوں کے لئے، اور صدقہ کرنے والے مردوں اور صدقہ کرنے والی عورتوں کے لئے، اور روزہ دار مردوں اور روزہ دار عورتوں کے لئے اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے مردوں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے مردوں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والی عورتوں کے لئے، اور اللہ کو خوب یاد کرنے والے مردوں اور اللہ کو خوب یاد کرنے والی عورتوں کے لئے اللہ نے مغفرت اور اجر عظیم تیار کر رکھا ہے
اسلام اور ایمان میں فرق اور ذکر الٰہی { ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا کہ آخر اس کی کیا وجہ ہے کہ مردوں کا ذکر تو قرآن میں آتا رہتا ہے لیکن عورتوں کا تو ذکر ہی نہیں کیا جاتا ؟ ایک دن میں اپنے گھر میں بیٹھی اپنے سر کے بال سلجھا رہی تھی جب میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز منبر پر سنی میں نے بالوں کو تو یونہی لپیٹ لیا اور حجرے میں آ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں سننے لگی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت یہی آیت تلاوت فرما رہے تھے } ۔ (سنن نسائی:425:صحیح) ۔ اور بہت سی روایتیں آپ رضی اللہ عنہا سے مختصراً مروی ہیں ۔ ایک روایت میں ہے کہ { چند عورتوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ کہا تھا } ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:28510:اسنادہ ضعیف) اور روایت میں ہے کہ { عورتوں نے ازواج مطہرات «رَضِیَ اللہُ عَنْہُنَّ وَأَرْضَاہُنَّ» سے یہ کہا تھا } ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:28505:) اسلام و ایمان کو الگ الگ بیان کرنا دلیل ہے اس بات کی کہ ایمان اسلام کا غیر ہے اور ایمان اسلام سے مخصوص و ممتاز ہے «قَالَتِ الْاَعْرَابُ اٰمَنَّا» ۱؎ (49-الحجرات:14) الخ ، والی آیت اور بخاری و مسلم کی حدیث کہ { زانی زنا کے وقت مومن نہیں ہوتا } ۱؎ (صحیح مسلم:2475) پھر اس پر اجماع کہ زنا سے کفر لازم نہیں آتا ۔ یہ اس پر دلیل ہے اور ہم شرح بخاری کی ابتداء میں اسے ثابت کر چکے ہیں ۔ [ یہ یاد رہے کہ ان میں فرق اس وقت ہے جب اسلام حقیقی نہ ہو جیسے کہ امام المحدثین امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ نے صحیح بخاری کتاب الایمان میں بدلائل کثیرہ ثابت کیا ہے ، «وَاللہُ اَعْلَمُ» ، مترجم ) ۔ قنوت سے مراد سکون کے ساتھ کی اطاعت گزاری ہے جیسے «ا اَمَّنْ ہُوَ قَانِتٌ اٰنَاءَ الَّیْلِ سَاجِدًا وَّقَایِٕمًا یَّحْذَرُ الْاٰخِرَۃَ وَیَرْجُوْا رَحْمَۃَ رَبِّہٖ قُلْ ہَلْ یَسْتَوِی الَّذِیْنَ یَعْلَمُوْنَ وَالَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ اِنَّمَا یَتَذَکَّرُ اُولُوا الْاَلْبَابِ» ۱؎ (39-الزمر:9) ، میں ہے اور فرمان ہے «وَلَہٗ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ کُلٌّ لَّہٗ قٰنِتُوْنَ» ۱؎ (30-الروم:26) یعنی ’ آسمان و زمین کی ہر چیزاللہ کی فرماں بردار ہے ‘ اور فرماتا ہے «یٰمَرْیَمُ اقْنُتِیْ لِرَبِّکِ وَاسْجُدِیْ وَارْکَعِیْ مَعَ الرّٰکِعِیْنَ» ۱؎ (3-آل عمران:43) ، اور فرماتا ہے «وَقُوْمُوْا لِلہِ قٰنِتِیْنَ» ۱؎ (2-البقرۃ:238) یعنی ’ اللہ کے سامنے با ادب فرماں برداری کی صورت میں کھڑے ہوا کرو ‘ ۔ پس اسلام کے اوپر کا مرتبہ ایمان ہے اور ان کے اجتماع سے انسان میں فرماں برداری اور اطاعت گزاری پیدا ہو جاتی ہے ۔ باتوں کی سچائی اللہ کو بہت ہی محبوب ہے اور یہ عادت ہر طرح محمود ہے ۔ صحابہ کبار رضی اللہ عنہم میں تو وہ بزرگ بھی تھے جنہوں نے جاہلیت کے زمانے میں بھی کوئی جھوٹ نہیں بولا تھا ، { سچائی ایمان کی نشانی ہے اور جھوٹ نفاق کی علامت ہے ۔ سچا نجات پاتا ہے ۔ سچ ہی بولا کرو ۔ سچائی نیکی کی طرف رہبری کرتی ہے اور نیکی جنت کی طرف ۔ جھوٹ سے بچو ۔ جھوٹ بدکاری کی طرف رہبری کرتا ہے اور فسق وفجور انسان کو جہنم کی طرف لے جاتا ہے ۔ انسان سچ بولتے بولتے اور سچائی کا قصد کرتے کرتے اللہ کے ہاں صدیق لکھ لیا جاتا ہے اور جھوٹ بولتے ہوئے اور جھوٹ کا قصد کرتے ہوئے اللہ کے نزدیک جھوٹا لکھ لیا جاتا ہے } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:6094) اور بھی اس بارے کی بہت سی حدیثیں ہیں ۔ صبر ثابت قدمی کا نتیجہ ہے ۔ مصیبتوں پر صبر ہوتا ہے اس علم پر کہ تقدیر کا لکھا ٹلتا نہیں ۔ سب سے زیادہ سخت صبر صدمے کے ابتدائی وقت پر ہے اور اسی کا اجر زیادہ ہے ۔ پھر تو جوں جوں زمانہ گزرتا ہے خواہ مخواہ ہی صبر آ جاتا ہے ۔ خشوع سے مراد تسکین دلجمعی تواضح فروتنی اور عاجزی ہے ۔ یہ انسان میں اس وقت آتی ہے جبکہ دل میں اللہ کا خوف اور رب کو ہر وقت حاضر ناظر جانتا ہو اور اس طرح اللہ کی عبادت کرتا ہو جیسے کہ وہ اللہ کو دیکھ رہا ہے اور یہ نہیں تو کم از کم اس درجے پر وہ ضرور ہو کہ اللہ اسے دیکھ رہا ہے ۔ صدقے سے مراد محتاج ضعیفوں کو جن کی کوئی کمائی نہ ہو نہ جن کا کوئی کمانے والا ہو انہیں اپنا فالتو مال دینا اس نیت سے کہ اللہ کی اطاعت ہو اور اس کی مخلوق کا کام بنے ۔ بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے { سات قسم کے لوگوں کو اللہ تعالیٰ اپنے عرش تلے سایہ دے گا جس دن اس کے سائے کے سوا کوئی سایہ نہ ہو گا ان میں ایک وہ بھی ہے جو صدقہ دیتا ہے لیکن اسطرح پوشیدہ طور پر کہ داہنے ہاتھ کے خرچ کی بائیں ہاتھ کو خبر نہیں لگتی } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:660) اور حدیث میں ہے { صدقہ خطاؤں کو اسطرح مٹا دیتا ہے جس طرح پانی آگ کو بجھا دیتا ہے } ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:2616 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح) اور بھی اس بارے کی بہت سی حدیثیں ہیں جو اپنی اپنی جگہ موجود ہیں ۔ روزے کی بابت حدیث میں ہے کہ { یہ بدن کی زکوٰۃ ہے } ۱؎ (سنن ابن ماجہ:1745 ، قال الشیخ الألبانی:ضعیف) یعنی اسے پاک صاف کر دیتا ہے اور طبی طور پر بھی ردی اخلاط کو مٹا دیتا ہے ۔ سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ” رمضان کے روزے رکھ کر جس نے ہر مہینے میں تین روزے رکھ لیے وہ «وَالصَّایِٕـمِیْنَ وَالـﮩـیِٕمٰتِ وَالْحٰفِظِیْنَ فُرُوْجَہُمْ وَالْحٰفِظٰتِ وَالذّٰکِرِیْنَ اللّٰہَ کَثِیْرًا وَّالذّٰکِرٰتِ اَعَدَّ اللّٰہُ لَہُمْ مَّغْفِرَۃً وَّاَجْرًا عَظِیْمًا» ۱؎ (33-الأحزاب:35) ، میں داخل ہو گیا “ ۔ روزہ شہوت کو بھی جھکا دینے والا ہے ۔ حدیث میں ہے { اے نوجوانو ! تم میں سے جسے طاقت ہو وہ تو اپنا نکاح کر لے تاکہ اس سے نگاہیں نیچی رہیں اور پاک دامنی حاصل ہو جائے اور جسے اپنے نکاح کی طاقت نہ ہو وہ روزے رکھے ، یہی اس کے لیے گویا خصی ہونا ہے } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:1905) اسی لیے روزوں کے ذکر کے بعد ہی بدکاری سے بچنے کا ذکر کیا اور فرمایا کہ ’ ایسے مسلمان مرد و عورت حرام سے اور گناہ کے کاموں سے بچتے رہتے ہیں ۔ اپنی اس خاص قوت کو جائز جگہ صرف کرتے ہیں ‘ ۔ جیسے اور آیت میں ہے کہ «وَالَّذِینَ ہُمْ لِفُرُوجِہِمْ حَافِظُونَ إِلَّا عَلَی أَزْوَاجِہِمْ أَوْ مَا مَلَکَتْ أَیْمَانُہُمْ فَإِنَّہُمْ غَیْرُ مَلُومِینَ فَمَنِ ابْتَغَی وَرَاءَ ذَلِکَ فَأُولَئِکَ ہُمُ الْعَادُونَ» ۱؎ (23-المؤمنون:7-5) ’ یہ لوگ اپنے بدن کو روکے رہتے ہیں ۔ مگر اپنی بیویوں سے اور لونڈیوں سے ان پر کوئی ملامت نہیں ۔ ہاں اس کے سوا جو اور کچھ طلب کرے وہ حد سے گزر جانے والا ہے ‘ ۔ ذکر اللہ کی نسبت ایک حدیث میں ہے کہ { جب میاں اپنی بیوی کو رات کے وقت جگا کر دو رکعت نماز دونوں پڑھ لیں تو وہ اللہ کا ذکر کرنے والوں میں لکھ لیے جاتے ہیں } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:1309 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح) ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ { یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے بڑے درجے والا بندہ قیامت کے دن اللہ کے نزدیک کون ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { کثرت سے اللہ کا ذکر کرنے والا } ۔ میں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کی راہ کے مجاہد سے بھی ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { اگرچہ وہ کافروں پر تلوار چلائے یہاں تک کہ تلوار ٹوٹ جائے اور وہ خون میں رنگ جائے تب بھی اللہ تعالیٰ کا بکثرت ذکر کرنے والا اس سے افضل ہی رہے گا } } ۔ ۱؎ (مسند احمد:411/2:حسن) مسند ہی میں ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مکے کے راستے میں جا رہے تھے جمدان پر پہنچ کر فرمایا : { یہ جمدان ہے مفرد بن کر چلو } ۔ آگے بڑھنے والوں نے پوچھا مفرد سے کیا مراد ہے ؟ فرمایا : { اللہ تعالیٰ کا بہت زیادہ ذکر کرنے والے } ۔ پھر فرمایا : { اے اللہ حج و عمرے میں اپنا سر منڈوانے والوں پر رحم فرما ! } ۔ لوگوں نے کہا بال کتروانے والوں کے لیے بھی دعا کیجئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { یا اللہ سر منڈوانے والوں کو بخش } ۔ لوگوں نے پھر کتروانے والوں کے لیے درخواست کی تو ، ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { کتروانے والے بھی } } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:2676) { آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ { اللہ کے عذابوں سے نجات دینے والا کوئی عمل اللہ کے ذکر سے بڑا نہیں } ۔ ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { میں تمہیں سب سے بہتر سب سے پاک اور سب سے بلند درجے کا عمل نہ بتاؤں جو تمہارے حق میں سونا چاندی اللہ کی راہ میں لٹانے سے بھی بہتر ہو اور اس سے بھی افضل ہو جب تم کل دشمن سے ملو گے اور ان کی گردنیں مارو گے اور وہ تمہاری گردنیں ماریں گے } ۔ لوگوں نے کہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ضرور بتلائے فرمایا : { اللہ عزوجل کا ذکر } } ۔ (مسند احمد:239/5:ضعیف) مسند احمد کی ایک حدیث میں ہے کہ { ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ کون سا مجاہد افضل ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { سب سے زیادہ اللہ کا ذکر کرنے والا } ۔ اس نے پھر روزے دار کی نسبت پوچھا یہی جواب ملا پھر نماز ، زکوٰۃ ، حج صدقہ ، سب کی بابت پوچھا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سب کا یہی جواب دیا تو سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے کہا ” پھر اللہ کا ذکر کرنے والے تو بہت ہی بڑھ گئے “ ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { ہاں } } ۔ ۱؎ (مسند احمد:438/3:ضعیف) کثرت ذکر اللہ کی فضیلت میں اور بھی بہت سی حدیثیں آئی ہیں ۔ اسی سورت کی آیت «یٰٓاَیٰہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اذْکُرُوا اللّٰہَ ذِکْرًا کَثِیْرًا» ۱؎ (33-الأحزاب:41) ، کی تفسیر میں ہم ان احادیث کو بیان کریں گے ان شاءاللہ تعالیٰ ۔ پھر فرمایا ’ یہ نیک صفتیں جن میں ہوں ہم نے ان کے لیے مغفرت تیار کر رکھی ہے اور اجر عظیم ‘ یعنی جنت ۔