ضَرَبَ لَكُم مَّثَلًا مِّنْ أَنفُسِكُمْ ۖ هَل لَّكُم مِّن مَّا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُم مِّن شُرَكَاءَ فِي مَا رَزَقْنَاكُمْ فَأَنتُمْ فِيهِ سَوَاءٌ تَخَافُونَهُمْ كَخِيفَتِكُمْ أَنفُسَكُمْ ۚ كَذَٰلِكَ نُفَصِّلُ الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يَعْقِلُونَ
وہ تمہیں سمجھانے کے لئے تمہاری ہی ذات سے ایک مثال (١٧) پیش کرتا ہے، کیا تمہارے غلاموں میں کچھ ایسے ہیں جو ہماری دی ہوئی روزی میں تمہارے ساتھ شریک ہوں اور تم سب اس میں برابر ہو، ان غلاموں سے تم اسی طرح ڈرتے ہو جس طرح اپنے برابر کے لوگوں سے ڈرتے ہو، ہم اسی طرح آیتوں کو کھول کر بیان کرتے ہیں ان لوگوں کے لئے جو عقل سے کام لیتے ہیں
اپنے دلوں میں جھانکو! مشرکین مکہ اپنے بزرگوں کو شریک اللہ جانتے تھے لیکن ساتھ ہی یہ بھی مانتے تھے کہ یہ سب اللہ کے غلام اور اس کے ماتحت ہیں ۔ چنانچہ وہ حج وعمرے کے موقعہ پر لبیک پکارتے ہوئے کہتے تھے کہ [ («لَبَّیْکَ لَا شَرِیکَ لَکَ ، إِلَّا شَرِیکًا ہُوَ لَکَ ، تَمْلِکُہُ وَمَا مَلَکَ») ] یعنی ہم تیرے دربار میں حاضر ہیں تیرا کوئی شریک نہیں مگر وہ کہ وہ خود اور جس چیز کا وہ مالک ہے سب تیری ملکیت میں ہے ۔ یعنی ہمارے شریکوں کا اور ان کی ملکیت کا تو ہی اصلی مالک ہے ۔ پس یہاں انہیں ایک ایسی مثال سے سمجھایا جا رہا ہے جو خود یہ اپنے نفس ہی میں پائیں ۔ اور بہت اچھی طرح غور وخوض کر سکیں ۔ فرماتا ہے کہ ’ کیا تم میں سے کوئی بھی اس امر پر رضا مند ہو گا کہ اس کے کل مال وغیرہ میں اس کے غلام اس کے برابر کے شریک ہوں اور ہر وقت اسے یہ دھڑ کا رہتا ہو کہ کہیں وہ تقسیم کرکے میری جائیداد اور ملکیت آدھوں آدھ بانٹ نہ لے جائیں ‘ ۔ پس جس طرح تم یہ بات اپنے لیے پسند نہیں کرتے اللہ کے لیے بھی نہ چاہو جس طرح غلام آقا کی ہمسری نہیں کر سکتا اسی طرح اللہ کا کوئی بندہ اللہ کا شریک نہیں ہوسکتا ۔ یہ عجب ناانصافی ہے کہ اپنے لیے جس بات سے چڑیں اور نفرت کریں اللہ کے لیے وہی بات ثابت کرنے بیٹھ جائیں ۔ خود بیٹیوں سے جلتے تھے، اتنا سنتے ہی کہ تیرے ہاں لڑکی ہوئی ہے منہ کالے پڑجاتے تھے اور اللہ کے مقرب فرشتوں کو اللہ کی لڑکیاں کہتے تھے ۔ اسی طرح خود اس بات کے کبھی رودار نہیں ہونے کہ اپنے غلاموں کو اپنا برابر کا شریک و سہیم سمجھیں ۔ لیکن اللہ کے غلاموں کو اللہ کا شریک سمجھ رہے ہیں کس قدر انصاف کا خون ہے ؟ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ” مشرک جو لبیک پکارتے تھے اور اس میں اللہ کے لا شریک ہونے کا اقرار کرکے پھر اس کی غلامی تلے دوسروں کو مان کر انہیں اس کا شریک ٹھہراتے تھے اس پر یہ آیت اتری “ ۔ ۱؎ (طبرانی کبیر:12348:ضعیف) اور اس میں بیان ہے کہ ’ جب تم اپنے غلاموں کو اپنے برابر کا شریک ٹھہرانے سے عار رکھتے ہو تو اللہ کے غلاموں کو اللہ کا شریک کیوں ٹھہرا رہے ہو ؟ ‘ ۔ یہ صاف بات بیان فرما کر ارشاد فرماتا ہے کہ ’ ہم اسی طرح تفصیل وار دلائل غافلوں کے سامنے رکھ دیتے ہیں ‘ ۔ پھر فرماتا ہے اور بتلاتا ہے کہ ’ مشرکین کے شرک کی کوئی سند ، عقلی ، نقلی کوئی دلیل نہیں صرف کرشمہ جہالت اور پیروی خواہش ہے ۔ جبکہ یہ راہ راست سے ہٹ گئے تو پھر انہیں اللہ کے سوا اور کوئی راہ راست پر لا نہیں سکتا ‘ ۔ یہ گو دوسروں کا اپنا کارساز اور مددگار مانتے ہیں لیکن واقعہ یہ ہے کہ دشمنان اللہ کا دوست کوئی نہیں ۔ کون ہے جو اس کی مرضی کے خلاف لب ہلا سکے ۔ کون ہے جو اس پر مہربانی کرے جس پر اللہ نامہربان ہو؟ جو وہ چاہے وہی ہوتا ہے اور جسے وہ نہ چاہے ہو نہیں سکتا ۔