وَمَا كُنتَ تَتْلُو مِن قَبْلِهِ مِن كِتَابٍ وَلَا تَخُطُّهُ بِيَمِينِكَ ۖ إِذًا لَّارْتَابَ الْمُبْطِلُونَ
اور آپ پہلے سے کوئی کتاب نہیں پڑھتے (٢٨) تھے، اور نہ اپنے ہاتھ سے اسے لکھتے تھے، ورنہ باطل پرست لوگ شبہ کرتے
1 پھر فرماتا ہے : اے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ! تم ان میں مدت العمر تک رہ چکے ہو اس قرآن کے نازل ہونے سے پہلے اپنی عمر کا ایک بڑا حصہ ان میں گزار چکے ہو انہیں خوب معلوم ہے کہ آپ پڑھے لکھے نہیں ، ساری قوم اور سارا ملک بخوبی علم رکھتا ہے کہ آپ محض امی ہیں نہ لکھنا جانتے ہیں نہ پڑھنا ۔ پھر آج جو آپ کو انوکھی فصیح وبلیغ اور پر از حکمت کتاب پڑھتے ہیں ظاہر ہے کہ وہ اللہ کی طرف سے ہے ۔ آپ اس حالت میں ایک حرف پڑھے ہوئے نہیں خود تصنیف وتالیف کر نہیں سکتے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہی صفت اگلی کتابوں میں تھی جیسے قرأت ناقل ہے «الَّذِینَ یَتَّبِعُونَ الرَّسُولَ النَّبِیَّ الْأُمِّیَّ الَّذِی یَجِدُونَہُ مَکْتُوبًا عِندَہُمْ فِی التَّوْرَاۃِ وَالْإِنجِیلِ یَأْمُرُہُم بِالْمَعْرُوفِ وَیَنْہَاہُمْ عَنِ الْمُنکَرِ» ۱؎ (7-الأعراف:157) یعنی ’ جو لوگ پیروی کرتے ہیں اس رسول و نبی امی کی جس کی صفات وہ اپنی کتاب توراۃ اور انجیل میں لکھی ہوئی پاتے ہیں جو انہیں نیکیوں کا حکم کرتا ہے اور برائیوں سے روکتا ہے ۔ ‘ لطف یہ ہے کہ اللہ کے معصوم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ لکھنے سے دور ہی رکھے گئے ۔ ایک سطر کیا معنی ، ایک حرف بھی لکھنا آپ کو نہ آتا تھا ۔ آپ نے کاتب مقرر کر لئے تھے جو وحی اللہ کو لکھ لیتے تھے اور ضرورت کے وقت شاہان دنیا سے خط وکتابت بھی وہی کرتے تھے پچھلے فقہاء میں قاضی ابوالولید باجی وغیرہ نے کہا کہ حدیبیہ والے دن خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے یہ جملہ صلح نامے میں لکھا تھا کہ «ھٰذَا مَا قَاضٰی عَلَیْہِ مُحَمَّدُ ابْنُ عَبْدُاللہَ» یعنی یہ وہ شرائط ہیں جن پر محمد بن عبداللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ کیا ۔ لیکن یہ قول درست نہیں یہ وہم قاضی صاحب کو بخاری شریف کی اس روایت سے ہوا ہے جس میں یہ الفاظ ہیں کہ { «ثُمَّ اَخَذَ فَکَتَبَ» یعنی پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ لے کر لکھا ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:2698-2699) لیکن اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے لکھنے کا حکم دیا ۔ جیسے دوسری روایت میں صاف موجود ہے کہ «ثُمَّ اَمَرَ فَکُتِبَ» یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر حکم دیا اور لکھا گیا ۔ مشرق و مغرب کے تمام علماء کا یہی مذہب ہے بلکہ باجی رحمہ اللہ وغیرہ پر انہوں نے اس قول کا بہت سخت رد کیا ہے اور اس سے بیزاری ظاہر کی ہے ۔ اور اس قول کی تردید اپنے اشعار اور خطبوں میں بھی کی ہے ۔ لیکن یہ بھی خیال رہے کہ قاضی صاحب وغیرہ کا یہ خیال ہرگز نہیں کہ آپ اچھی طرح لکھنا جانتے تھے بلکہ وہ کہتے تھے کہ آپ کا یہ جملہ صلح نامے پر لکھ لینا آپ کا ایک معجزہ تھا ۔ جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ { دجال کی دونوں آنکھوں کے درمیان کافر لکھا ہوا ہو گا } اور ایک روایت میں ہے کہ { ک ف ر لکھا ہوا ہو گا جسے ہر مومن پڑھ لے گا } ۱؎ (صحیح بخاری:7131) یعنی اگرچہ ان پڑھ ہو ، تب بھی اسے پڑھ لے گا ۔ یہ مومن کی ایک کرامت ہو گی اسی طرح یہ فقرہ لکھ لینا اللہ کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک معجزہ تھا اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ آپ لکھنا جانتے تھے ۔ یا آپ نے سیکھا تھا ۔ بعض لوگ ایک روایت پیش کرتے ہیں جس میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال نہ ہوا جب تک کہ آپ نے لکھنا نہ سیکھ لیا ۔ یہ روایت بالکل ضعیف ہے بلکہ محض بے اصل ہے ۔ قرآن کریم کی اس آیت کو دیکھئے ۔ کس قدر تاکید کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پڑھا ہونے کا انکار کرتی ہے اور کتنی سختی کے ساتھ پرزور الفاظ میں اس کا بھی انکار کرتی ہے کہ آپ لکھنا جانتے ہیں ۔ یہ جو فرمایا کہ داہنے ہاتھ سے یہ باعتبار غالب کے کہہ دیا ہے ورنہ لکھا تو دائیں ہاتھ سے ہی جاتا ہے اسی طرح «وَلَا طَائِرٍ یَطِیرُ بِجَنَاحَیْہِ» ۱؎ (6-الأنعام:38) میں ہے کیونکہ ہر پرند اپنے پروں سے ہی اڑتا ہے ۔ پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ان پڑھ ہونا بیان فرما کر ارشاد ہوتا ہے کہ اگر آپ پڑھے لکھے ہوتے تو یہ باطل پرست آپ کی نسبت شک کرنے کی گنجائش پاتے کہ سابقہ انبیاء کی کتابوں سے پڑھ لکھ کر نقل کر لیتا ہے لیکن یہاں تو ایسا نہیں ۔ تعجب ہے کہ باوجود ایسانہ ہونے کے پھر بھی یہ لوگ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ الزام لگاتے ہیں ’ اور کہتے ہیں کہ یہ گزرے ہوئے لوگوں کی کہانیاں ہیں جنہیں اس نے لکھ لیا ہے ۔ وہی اس کے سامنے صبح و شام پڑھی جاتی ہیں ۔ ‘ ۱؎ (25-الفرقان:5) باوجودیکہ خود جانتے ہیں کہ ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پڑھے لکھے نہیں ۔ ان کے اس قول کے جواب میں جناب باری عز اِسمہُ نے فرمایا : ’ انہیں جواب دو کہ اسے اس اللہ نے نازل فرمایا ہے جو زمین و آسمان کی پوشیدگیوں کو جانتا ہے ۔ ‘ ۱؎ (25-الفرقان:6) یہاں فرمایا بلکہ یہ روشن آیتیں ہیں جو اہل علم کے سینوں میں ہیں ۔ خود آیات واضح صاف اور سلجھے ہوئے الفاظ میں ہیں ۔ پھر علماء پر ان کا سمجھنا یاد کرنا پہنچانا سب آسان ہے جیسے فرمان ہے «وَلَقَدْ یَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّکْرِ فَہَلْ مِن مٰدَّکِرٍ» ۱؎ (54-القمر:17) یعنی ’ ہم نے اس قرآن کو نصیحت کے لیے بالکل آسان بنا دیا ہے پس کیا کوئی ہے جو اس سے نصیحت حاصل کرے ؟ ‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : { ہر نبی کو ایسی چیز دی گئی جس کے باعث لوگ ان پر ایمان لائے مجھے ایسی چیز وحی اللہ دی گئی ہے جو اللہ نے میری طرف نازل فرمائی ہے تو مجھے ذات اللہ سے امید ہے کہ تمام نبیوں کے تابعداروں سے زیادہ میرے تابعدار ہونگے ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:4981) صحیح مسلم کی حدیث میں ہے کہ { اے نبی ! میں تمہیں آزماؤں گا اور تمہاری وجہ سے لوگوں کی بھی آزمائش کرلوں گا ۔ میں تم پر ایسی کتاب نازل فرماؤنگا جسے پانی دھو نہ سکے ۔ تو اسے سوتے جاگتے پڑھتا رہے گا ۔ } ۱؎ (صحیح مسلم:2865-63) مطلب یہ ہے کہ اس کے حروف پانی سے دھوئے جائیں لیکن وہ ضائع ہونے سے محفوظ ہے ۔ جیسے کہ حدیث میں ہے: { اگر قرآن کسی چمڑے میں ہو تو اسے آگ نہیں جلائے گی ۔ } ۱؎ (مسند احمد:155/4:حسن) اس لیے کہ وہ سینوں میں محفوظ ہے ، زبانوں پر آسان ہے اور دلوں میں موجود ہے ۔ اور اپنے لفظ اور معنی کے اعتبار سے ایک جیتا جاگتا معجزہ ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ سابقہ کتابوں میں اس امت کی ایک صفت یہ بھی مروی ہے کہ «اِنَّا جِیْلُھُمْ فِیْْ صُدُوْرِھِمْ» ان کی کتاب ان کے سینوں میں ہو گی ۔ امام ابن جریر رحمہ اللہ اسے پسند فرماتے ہیں کہ معنی یہ ہیں بلکہ اس کا علم کہ تو اس کتاب سے پہلے کوئی کتاب نہیں پڑھتا تھا اور نہ اپنے ہاتھ سے کچھ لکھتا تھا یہ آیات بینات اہل کتاب کے ذی علم لوگوں کے سینوں میں موجود ہیں ۔ قتادۃ اور ابن جریج رحمہ اللہ علیہم سے بھی یہی منقول ہے اور پہلا قول حسن بصری رحمہ اللہ کا ہے اور یہی بہ روایت عوفی رحمہ اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے منقول ہے اور یہ ضحاک رحمہ اللہ نے کہا ہے اور یہی زیادہ ظاہر ہے ۔ واللہ اعلم ۔ پھر فرماتا ہے کہ ہماری آیتوں کا جھٹلانا قبول نہ کرنا یہ حد سے گزرجانے والوں اور ضدی لوگوں کا ہی کام ہے جو حق ناحق کو سمجھتے ہیں اور نہ اس کی طرف مائل ہوتے ہیں ۔ جیسے فرمان ہے : ’ جن پر تیرے رب کی بات ثابت ہو چکی ہے وہ ہرگز ایمان نہ لائیں گے اگرچہ ان کے پاس نشانیاں آ جائیں ۔ یہاں تک کہ وہ المناک عذاب کا مشاہدہ کر لیں ۔ ‘ ۱؎ (10-یونس:96-97)