سورة العنكبوت - آیت 45

اتْلُ مَا أُوحِيَ إِلَيْكَ مِنَ الْكِتَابِ وَأَقِمِ الصَّلَاةَ ۖ إِنَّ الصَّلَاةَ تَنْهَىٰ عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنكَرِ ۗ وَلَذِكْرُ اللَّهِ أَكْبَرُ ۗ وَاللَّهُ يَعْلَمُ مَا تَصْنَعُونَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

آپ جو کتاب (٢٥) بذریعہ وحی نازل کی گئی ہے، اس کی تلاوت کیجیے اور نماز قائم کیجیے، بے شک نماز فحش اور برے کاموں سے روکتی ہے، اور یقیناً اللہ کی یاد تمام نیکیوں سے بڑی ہے اور جو کچھ تم کرتے ہو، اللہ اس سے باخبر ہے

ابن کثیر - حافظ عماد الدین ابوالفداء ابن کثیر صاحب

اخلاص خوف اور اللہ کا ذکر اللہ تبارک وتعالیٰ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اور ایمان داروں کو حکم دے رہا ہے کہ وہ قرآن کریم کی تلاوت کرتے رہیں اور اسے اوروں کو بھی سنائیں اور نمازوں کی نگہبانی کریں اور پابندی سے پڑھتے رہا کریں ۔ نماز انسان کو ناشائستہ کاموں اور نالائق حرکتوں سے باز رکھتی ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ { جس نمازی کی نماز نے اسے گناہوں سے اور سیاہ کاریوں سے باز نہ رکھا وہ اللہ سے بہت دور ہو جاتا ہے ۔ } ابن ابی حاتم میں ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس آیت کی تفسیر دریافت کی گئی تو آپ نے فرمایا : { جسے اس کی نماز بےجا اور فحش کاموں سے نہ روکے تو سمجھ لو کہ اس کی نماز اللہ کے ہاں مقبول نہیں ہوئی ۔ } ۱؎ (ضعیف و منقطع) اور روایت میں ہے کہ { وہ اللہ سے دور ہی ہوتا چلا جائے گا } ۔ ۱؎ (طبرانی کبیر:11025:ضعیف) ایک موقوف روایت میں ہے ، سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ { جو نمازی بھلے کاموں میں مشغول اور برے کاموں سے بچنے والا نہ ہو سمجھ لو کہ اس کی نماز اسے اللہ سے اور دور کرتی جا رہی ہے ۔ } رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : ” جو نماز کی بات نہ مانے اس کی نماز نہیں ، نماز بےحیائی سے اور بدفعلیوں سے روکتی ہے ، اس کی اطاعت یہ ہے کہ ان بےہودہ کاموں سے نمازی رک جائے ۔ } شعیب علیہ السلام سے جب ان کی قوم نے کہا کہ اے شعیب علیہ السلام ! کیا تمہیں تمہاری نماز حکم کرتی ہے تو سفیان رحمہ اللہ نے اس کی تفسیر میں فرمایا کہ { ہاں اللہ کی قسم ! نماز حکم بھی کرتی ہے اور منع بھی کرتی ہے ۔ } ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:27784:ضعیف و منقطع) سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ سے کسی نے کہا : فلاں شخص بڑی لمبی نماز پڑھتا ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { نماز اسے نفع دیتی ہے جو اس کا کہا مانے ۔ } میری تحقیق میں اوپر جو مرفوع روایت بیان ہوئی ہے اس کا بھی موقوف ہونا ہی زیادہ صحیح ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ بزار میں ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی نے کہا : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ! فلاں شخص نماز پڑھتا ہے لیکن چوری نہیں چھوڑتا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : عنقریب اس کی نماز اس کی یہ برائی چھڑا دے گی ۔ } ۱؎ (مسند احمد:447/2:صحیح) چونکہ نماز ذکر اللہ کا نام ہے اسی لیے اس کے بعد ہی فرمایا اللہ کی یاد بڑی چیز ہے اللہ تعالیٰ تمہاری تمام باتوں سے اور تمہارے کل کاموں سے باخبر ہے ۔ ابوالعالیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں نماز میں تین چیزیں ہیں اگر یہ نہ ہوں تو نماز نماز نہیں ۔ ۱ ۔ اخلاص وخلوص ۲ ۔ خوف الہی اور ۳ ۔ ذکر اللہ ۔ اخلاص سے تو انسان نیک ہو جاتا ہے اور خوف الہی سے انسان گناہوں کو چھوڑ دیتا ہے اور ذکر اللہ یعنی قرآن اسے بھلائی و برائی بتا دیتا ہے وہ حکم بھی کرتا ہے اور منع بھی کرتا ہے ۔ ابن عون انصاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں : جب تو نماز میں ہو تو نیکی میں ہے اور نماز تجھے فحش اور منکر سے بچائے ہوئے ہے ۔ اور اس میں جو کچھ تو ذکر اللہ کررہا ہے وہ تیرے لیے بڑے ہی فائدے کی چیز ہے ۔ حماد رحمہ اللہ کا قول ہے کہ کم سے کم حالت نماز میں تو برائیوں سے بچا رہے گا ۔ ایک راوی سے ابن عباس رضی اللہ عنہما کا یہ قول مروی ہے کہ جو بندہ یاد اللہ کو یاد کرتا ہے اللہ تعالیٰ بھی اسے یاد کرتا ہے ۔ اس نے کہا : ہمارے ہاں جو صاحب ہیں وہ تو کہتے ہیں کہ مطلب اس کا یہ ہے کہ جب تم اللہ کا ذکر کرو گے تو وہ تمہاری یاد کرے گا اور یہ بہت بڑی چیز ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے «فَاذْکُرُ‌ونِی أَذْکُرْ‌کُمْ» ۱؎ (2-البقرۃ:152) ’ تم میری یاد کرو میں تمہاری یاد کرونگا ۔ ‘ اسے سن کر آپ نے فرمایا : اس نے سچ کہا ۔ یعنی دونوں مطلب درست ہیں ۔ یہ بھی اور وہ بھی اور خود ابن عباس سے یہ بھی تفسیر مروی ہے ۔ عبداللہ بن ربیعہ رحمہ اللہ سے ایک مرتبہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے دریافت فرمایا کہ اس جملے کا مطلب جانتے ہو ؟ انہوں نے کہا ہاں اس سے مراد نماز میں «سُبْحَانَ اللہِ ، اَلْحَمْدُلِلہِ ، اَللہُ اَکْبَرُ» وغیرہ کہنا ہے ۔ آپ نے فرمایا : تو نے عجیب بات کہی یہ یوں نہیں ہے بلکہ مقصود یہ ہے کہ حکم کے اور منع کے وقت اللہ کا تمہیں یاد کرنا تمہارے ذکر اللہ سے بہت بڑا اور بہت اہم ہے ۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود ، سیدنا ابودرداء ، سیدنا سلمان فارسی رضی اللہ عنہم وغیرہ سے بھی یہی مروی ہے ۔ اور اسی کو امام ابن جریر رحمہ اللہ پسند فرماتے ہیں ۔