سورة القصص - آیت 76

إِنَّ قَارُونَ كَانَ مِن قَوْمِ مُوسَىٰ فَبَغَىٰ عَلَيْهِمْ ۖ وَآتَيْنَاهُ مِنَ الْكُنُوزِ مَا إِنَّ مَفَاتِحَهُ لَتَنُوءُ بِالْعُصْبَةِ أُولِي الْقُوَّةِ إِذْ قَالَ لَهُ قَوْمُهُ لَا تَفْرَحْ ۖ إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْفَرِحِينَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

بے شک قارون (٤٠) قوم موسیٰ کا ایک فرد تھا، پھر وہ ان کے خلاف سرکشی کربیٹھا اور ہم نے اسے اتنے خزانے دیے تھے کہ طاقتور لوگوں کی ایک جماعت اس کی کنجیاں بمشکل اٹھاپاتی تھی جب اس سے اس کی قومنے کہا کہ اتراؤ نہیں بے شک اللہ تعالیٰ اترانے والوں کو پسند نہیں کرتا ہے

ابن کثیر - حافظ عماد الدین ابوالفداء ابن کثیر صاحب

افترا بندی چھوڑ دو مروی ہے کہ قارون موسیٰ علیہ السلام کے چچا کا لڑکا تھا ۔ اس کانسب یہ ہے قارون بن یصہر بن قاہیث اور موسیٰ علیہ السلام کانسب یہ ہے موسیٰ بن عمران بن قاہیث ۔ ابن اسحٰق کی تحقیق یہ کہ یہ موسیٰ علیہ السلام کا چچا تھا ۔ لیکن اکثر علماء چچا کا لڑکا بتاتے ہیں ۔ یہ بہت خوش آواز تھا ، تورات بڑی خوش الحانی سے پڑھتا تھا اس لیے اسے لوگ منور کہتے تھے ۔ لیکن جس طرح سامری نے منافق پنا کیا تھا یہ اللہ کا دشمن بھی منافق ہو گیا تھا ۔ چونکہ بہت مالدار تھا اس لیے بھول گیا تھا اور اللہ کو بھول بیٹھا تھا ۔ قوم میں عام طور پر جس لباس کا دستور تھا اس نے اس سے بالشت بھر نیچا لباس بنوایا تھا جس سے اس کا غرور اور اس کی دولت ظاہر ہو ۔ اس کے پاس اس قدر مال تھا کہ اس خزانے کی کنجیاں اٹھانے پر قوی مردوں کی ایک جماعت مقرر تھی ۔ اس کے بہت خزانے تھے ۔ ہر خزانے کی کنجی الگ تھی جو بالشت بھر کی تھی ۔ جب یہ کنجیاں اس کی سواری کے ساتھ خچروں پر لادی جاتیں تو اس کے لیے ساٹھ پنج کلیاں خچر مقرر ہوتے ، «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔