وَيَوْمَ يُنَادِيهِمْ فَيَقُولُ أَيْنَ شُرَكَائِيَ الَّذِينَ كُنتُمْ تَزْعُمُونَ
اور جس دن اللہ انہیں پکارے گا (٣١) اور پوچھے گا کہ کہاں ہیں میرے وہ شرکاء جن کے ہونے کا تم دعوی کرتے تھے
کہاں ہیں تمہارے بت مشرکوں کو قیامت کے دن پکار کر سامنے کھڑا کر کے اللہ تبارک وتعالیٰ فرمائے گا کہ ’ دنیا میں جنہیں تم میرے سوا پوجتے رہے جن بتوں اور پتھروں کو مانتے رہے ہو وہ کہاں ہیں ؟ انہیں پکارو اور دیکھو کہ وہ تمہاری کچھ مدد کرتے ہیں ؟ یا وہ خود اپنی کوئی مدد کر سکتے ہیں ؟ ‘ یہ صرف بطور ڈانٹ ڈپٹ کے ہو گا ۔ جیسے فرمان ہے آیت «وَلَقَدْ جِئْتُمُوْنَا فُرَادٰی کَمَا خَلَقْنٰکُمْ اَوَّلَ مَرَّۃٍ وَّتَرَکْتُمْ مَّا خَوَّلْنٰکُمْ وَرَاءَ ظُہُوْرِکُمْ وَمَا نَرٰی مَعَکُمْ شُفَعَاءَکُمُ الَّذِیْنَ زَعَمْتُمْ اَنَّہُمْ فِیْکُمْ شُرَکٰؤُا لَقَدْ تَّقَطَّعَ بَیْنَکُمْ وَضَلَّ عَنْکُمْ مَّا کُنْتُمْ تَزْعُمُوْنَ» ۱؎ (6-الأنعام:94) ، یعنی ’ ہم تمہیں ویسے ہی تن تنہا اور ایک ایک کر کے لائیں گے جیسے ہم نے اول دفعہ پیدا کیا تھا اور جو کچھ ہم نے تمہیں یاد دلایا تھا وہ سب تم اپنے پیچھے ہی چھوڑ آئے ۔ ہم تو آج تمہارے ساتھ کسی سفارشی کو بھی نہیں دیکھتے جنہیں تم شریک الٰہی ٹھیرائے ہوئے تھے ۔ تم میں ان میں کوئی لگاؤ نہیں رہا اور تمہارے گمان کردہ شریک سب آج تم سے کھوئے ہوئے ہیں ۔ جن پر عذاب کی بات ثابت ہو چکی ‘ ۔ یعنی شیاطین اور سرکش لوگ اور کفر کے بانی اور شرک کی طرف لوگوں کو بلانے والے یہ سب بڑے بڑے لوگ اس دن کہیں گے کہ اے اللہ ہم نے انہیں گمراہ کیا اور انہوں نے ہماری کفریہ باتیں سنیں اور مانیں جیسے ہم بہکے ہوئے تھے انہیں بھی بہکایا ۔ ہم ان کی عبادت سے تیرے سامنے اپنی بیزاری کا اظہار کرتے ہیں ۔ جیسے اور آیت میں ہے «وَاتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ اٰلِہَۃً لِّیَکُوْنُوْا لَہُمْ عِزًّا» الخ ۱؎ (19-مریم:81-82) ، ’ انہوں نے اللہ کے سوا اور معبود بنالئے تاکہ وہ ان کے لیے باعث عزت بنیں لیکن ایسا نہیں ہونے کا یہ تو ان کی عبادت سے بھی انکار کر جائیں گے اور الٹے ان کے دشمن بن جائیں گے ‘ ۔ اور آیت میں ہے «وَمَنْ اَضَلٰ مِمَّنْ یَّدْعُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ مَنْ لَّا یَسْتَجِیْبُ لَہٗٓ اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ وَہُمْ عَنْ دُعَایِٕہِمْ غٰفِلُوْنَ» الخ ۱؎ (46-الأحقاف:5-6) ، ’ اس سے بڑھ کر گمراہ کون ہے جو اللہ کے سوا دوسروں کو پکارتا ہے جو قیامت کی گھڑی تک انہیں جواب نہ دے سکیں اور وہ ان کی پکار سے بھی غافل ہوں اور قیامت کے دن لوگوں کے حشر کے موقعہ پر ان کے دشمن بن جائیں اور اس بات سے صاف انکار کر دیں کہ انہوں نے ان کی عبادت کی تھی ‘ ۔ خلیل اللہ علیہ السلام نے اپنی قوم سے فرمایا تھا کہ ” تم نے جن بتوں کی پوجا پاٹ شروع کر رکھی ہے ان سے صرف دنیاکی ہی دوستی ہے قیامت کے دن تو تم سب ایک دوسرے کے منکر ہو جاؤ گے اور ایک دوسرے پر لعنت بھیجو گے “ ۔ اور آیت میں ہے «اِذْ تَبَرَّاَ الَّذِیْنَ اتٰبِعُوْا مِنَ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْا وَرَاَوُا الْعَذَابَ وَتَقَطَّعَتْ بِہِمُ الْاَسْـبَابُ» الخ ۱؎ (2-البقرۃ:167-166) ، یعنی ’ جو تابعداری کرنے والے تھے اور وہ ان کی پرجوش کی تابعداری کرتے رہے مگر یہ ان سے بری اور بیزار ہو جائیں گے یعنی عذابوں کو سامنے دیکھتے ہوئے سب تعلقات ٹوٹ جائیں گے ‘ ۔ ان سے فرمایا جائے گا کہ ’ دنیا میں جنہیں پوجتے رہے ہو آج انہیں کیوں نہیں پکارتے ؟‘ اب یہ پکاریں گے لیکن کوئی جواب نہ پائیں گے اور انہیں یقین ہو جائے گا کہ یہ آگ کے عذاب میں جائیں گے اس وقت آرزو کریں گے کہ کاش ہم راہ یافتہ ہوتے ؟