إِنَّ هَٰذَا الْقُرْآنَ يَقُصُّ عَلَىٰ بَنِي إِسْرَائِيلَ أَكْثَرَ الَّذِي هُمْ فِيهِ يَخْتَلِفُونَ
بے شک یہ قرآن بنی اسرائیل (٢٨) کے لیے ان اکثر باتوں کو بیان کرتا ہے جن میں وہ آپس میں اختلاف کرتے ہیں
حق و باطل میں فیصلہ کرنے والا قرآن پاک کی ہدایت بیان ہو رہی ہے ۔ کہ اس میں جہاں رحمت ہے وہاں فرقان بھی ہے اور بنی اسرائیل یعنی حاملان تورات وانجیل کے اختلافات کا فیصلہ بھی ہے ۔ جیسے عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں یہودیوں نے منہ پھٹ بات اور نری تہمت رکھ دی تھی اور عیسائیوں نے انہیں ان کی حد سے آگے بڑھا دیا تھا ۔ قرآن نے فیصلہ کیا اور افراط وتفریط کو چھوڑ کر حق بات بتادی کہ وہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں ۔ وہ اللہ کے حکم سے پیدا ہوئے ہیں ان کی والدہ نہایت پاکدامن تھی ۔ صحیح اور بیشک وشبہ بات یہی ہے ۔ اور یہ قرآن مومنوں کے دل کی ہدایت ہے ۔ اور ان کے لیے سراسر رحمت ہے ۔ قیامت کے دن اللہ ان کے فیصلے کرے گا جو بدلہ لینے میں غالب ہے اور بندہ کے اقوال و افعال کا عالم ہے ۔ تجھے اسی پر کام بھروسہ رکھنا چاہیئے ۔ اپنے رب کی رسالت کی تبلیغ میں کوتاہی نہیں کرنی چاہیئے ۔ تو تو سراسر حق پر ہے مخالفین شقی ازلی ہیں ۔ ان پر تیرے رب کی بات صادق آ چکی ہے کہ انہیں ایمان نصیب نہیں ہونے کا ۔ گو تو انہیں تمام معجزے دکھا دے ۔ تو مردوں کو نفع دینے والی سماعت نہیں دے سکتا ۔ اسی طرح یہ کفار ہیں کہ ان کے دلوں پر پردے ہیں ان کے کانوں میں بوجھ ہیں ۔ یہ بھی قبولیت کا سننا نہیں سنیں گے ۔ اور نہ تو بہروں کو اپنی آواز سناسکتا ہے جب کہ وہ پیٹھ موڑے منہ پھیرے جا رہے ہوں ۔ اور تو اندھوں کو ان کی گمراہی میں بھی رہنمائی نہیں کر سکتا تو صرف انہیں کو سنا سکتا ہے ۔ یعنی قبول صرف وہی کریں گے جو کان لگا کر سنیں اور دل لگا کر سمجھیں ساتھ ہی ایمان و اسلام بھی ان میں ہو ۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ماننے والے ہوں دین اللہ کے قائل وحامل ہوں ۔