لَّا يَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُونَ الْكَافِرِينَ أَوْلِيَاءَ مِن دُونِ الْمُؤْمِنِينَ ۖ وَمَن يَفْعَلْ ذَٰلِكَ فَلَيْسَ مِنَ اللَّهِ فِي شَيْءٍ إِلَّا أَن تَتَّقُوا مِنْهُمْ تُقَاةً ۗ وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ ۗ وَإِلَى اللَّهِ الْمَصِيرُ
مومنوں کے لیے مناسب نہیں کہ مومنوں کے بجائے کافروں کو دوست (24) بنائیں، اور جو ایسا کرے گا اس کا اللہ سے کوئی تعلق نہیں ہوگا، مگر یہ کہ ان کے شر سے بچنا مقصود ہو، اور اللہ تمہیں اپنی ذات سے ڈراتا ہے، اور اللہ کی طرف ہی لوٹ کر جانا ہے۔
ترک موالات کی وضاحت یہاں اللہ تعالیٰ ترک موالات کا حکم دیتے ہوئے فرماتا ہے «یَا أَیٰہَا الَّذِینَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا الْکَافِرِینَ أَوْلِیَاءَ مِن دُونِ الْمُؤْمِنِینَ أَتُرِیدُونَ أَن تَجْعَلُوا لِلہِ عَلَیْکُمْ سُلْطَانًا مٰبِینًا (4-النساء:144) مسلمانوں کو کفار سے دوستی اور محض محبت کرنا مناسب نہیں بلکہ انہیں آپس میں ایمان داروں سے میل ملاپ اور محبت رکھنی چاہیئے، پھر انہیں حکم سناتا ہے کہ جو ایسا کرے گا اس سے اللہ بالکل بیزار ہو جائے گا ۔ جیسے اور جگہ ہے «یٰٓاَیٰہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْا عَدُوِّیْ وَعَدُوَّکُمْ اَوْلِیَاءَ تُلْقُوْنَ اِلَیْہِمْ بِالْمَوَدَّۃِ» (60-الممتحنۃ:1) یعنی مسلمانوں میرے اور اپنے دشمنوں سے دوستی نہ کیا کرو ۔ اور جگہ فرمایا «یَا أَیٰہَا الَّذِینَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا الْیَہُودَ وَالنَّصَارَیٰ أَوْلِیَاءَ ۘ بَعْضُہُمْ أَوْلِیَاءُ بَعْضٍ وَمَن یَتَوَلَّہُم مِّنکُمْ فَإِنَّہُ مِنْہُمْ» (5-المائدۃ:51) مومنو یہ یہود و نصاریٰ آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں تم میں سے جو بھی ان سے دوستی کرے گا وہ انہی میں سے ہے ۔ دوسری جگہ«وَالَّذِینَ کَفَرُوا بَعْضُہُمْ أَوْلِیَاءُ بَعْضٍ إِلَّا تَفْعَلُوہُ تَکُن فِتْنَۃٌ فِی الْأَرْضِ وَفَسَادٌ کَبِیرٌ» (8-الأنفال:73) پروردگار عالم نے مہاجر انصار اور دوسرے مومنوں کے بھائی چارے کا ذکر کر کے فرمایا کہ کافر آپس میں ایک دوسرے کے خیرخواہ اور دوست ہیں تم بھی آپس میں اگر ایسا نہ کرو گے تو زمین میں فتنہ پھیل جائے گا اور زبردست فساد برپا ہو گا۔ البتہ ان لوگوں کو رخصت دے دی گئی جو کسی شہر میں کسی وقت ان کی بدی اور برائی سے ڈر کر دفع الوقتی کے لیے بظاہر کچھ میل ملاپ ظاہر کریں لیکن دل میں ان کی طرف رغبت اور ان سے حقیقی محبت نہ ہو، جیسے صحیح بخاری شریف میں سیدنا ابودرداء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہم بعض قوموں سے کشادہ پیشانی سے ملتے ہیں لیکن ہمارے دل ان پر لعنت بھیجتے رہتے ہیں۔ ۱؎ (صحیح بخاری:6131) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ صرف زبان سے اظہار کرے لیکن عمل میں ان کا ساتھ ایسے وقت میں بھی ہرگز نہ دے، یہی بات اور مفسرین سے بھی مروی ہے اور اسی کی تائید اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان بھی کرتا ہے۔ «مَنْ کَفَرَ بِاللّٰہِ مِنْ بَعْدِ اِیْمَانِہٖٓ اِلَّا مَنْ اُکْرِہَ وَقَلْبُہٗ مُطْمَ بِالْاِیْمَانِ وَلٰکِنْ مَّنْ شَرَحَ بِالْکُفْرِ صَدْرًا فَعَلَیْہِمْ غَضَبٌ مِّنَ اللّٰہِ وَلَہُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ» (16-النحل:106) جو شخص اپنے ایمان کے بعد اللہ سے کفر کرے سوائے ان مسلمانوں کے جن پر زبردستی کی جائے مگر ان کا دل ایمان کے ساتھ مطمئن ہو۔ بخاری میں ہے سیدنا حسن رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں یہ حکم قیامت تک کے لیے ہے۔ ۱؎ (صحیح بخاری:6940) ۔ پھر فرمایا اللہ تمہیں اپنے آپ سے ڈراتا ہے۔ یعنی اپنے دبدبے اور اپنے عذاب سے اس شخص کو خبردار کئے دیتا ہے جو اس کے فرمان کی مخالفت کر کے اس کے دشمنوں سے دوستی رکھے اور اس کے دوستوں سے دشمنی کرے۔ پھر فرمایا اللہ کی طرف لوٹنا ہے ہر عمل کرنے والے کو اس کے عمل کا بدلہ وہیں ملے گا۔ سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہو کر فرمایا اے بنی اود! میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا قاصد ہو کر تمہاری طرف آیا ہوں جان لو کہ اللہ کی طرف پھر کر سب کو جانا ہے پھر یا تو جنت ٹھکانا ہو گا یا جہنم۔