سورة الشعراء - آیت 196

وَإِنَّهُ لَفِي زُبُرِ الْأَوَّلِينَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور یہ بات اگلے لوگوں کی کتابوں میں بھی موجود ہے۔

ابن کثیر - حافظ عماد الدین ابوالفداء ابن کثیر صاحب

بشارت و تصدیق یافتہ کتاب فرماتا ہے کہ ’ اللہ کی اگلی کتابوں میں بھی اس پاک اور اللہ کی آخری کلام کی پیشن گوئی اور اس کی تصدیق وصفت موجود ہے ۔ اگلے نبیوں نے بھی اس کی بشارت دی یہاں تک کہ ان تمام نبیوں کے آخری نبی جن کے بعد حضور علیہ السلام تک اور کوئی نبی نہ تھا ‘ ۔ «وَإِذْ قَالَ عِیسَی ابْنُ مَرْیَمَ یَا بَنِی إِسْرَائِیلَ إِنِّی رَسُولُ اللہِ إِلَیْکُم مٰصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیَّ مِنَ التَّوْرَاۃِ وَمُبَشِّرًا بِرَسُولٍ یَأْتِی مِن بَعْدِی اسْمُہُ أَحْمَدُ فَلَمَّا جَاءَہُم بِالْبَیِّنَاتِ قَالُوا ہٰذَا سِحْرٌ مٰبِینٌ» ۱؎ (61-الصف:6) یعنی عیسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کو جمع کر کے جو خطبہ دیتے ہیں اس میں فرماتے ہیں کہ ’ اے بنی اسرائیل ! میں تمہاری جانب اللہ کا بھیجا ہوا رسول ہوں جو اگلی کتابوں کو سچانے کے ساتھ ہی آنے والے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بشارت تمہیں سناتا ہوں ‘ ۔ زبور داؤ دعلیہ السلام کی کتاب کا نام ہے یہاں زبر کا لفظ کتابوں کے معنی میں ہے جیسے فرمان ہے ۔ آیت «وَکُلٰ شَیْءٍ فَعَلُوْہُ فِی الزٰبُرِ» ۱؎ (54-القمر:52) ’ جو کچھ یہ کر رہے ہیں سب کتابوں میں تحریر ہے ‘ ۔ پھر فرماتا ہے کہ ’ اگر یہ سمجھیں اور ضد اور تعصب نہ کریں تو قرآن کی حقانیت پر یہی دلیل کیا کم ہے کہ خود بنی اسرائیل کے علماء اسے مانتے ہیں ‘ ۔ ان میں سے جو حق گو اور بے تعصب ہیں وہ توراۃ کی ان آیتوں کا لوگوں پر کھلے عام ذکر کر رہے ہیں جن میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت قرآن کا ذکر اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حقانیت کی خبر ہے ۔ عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ ، سلمان فارسی رضی اللہ عنہ اور ان جیسے حق گو حضرات نے دنیا کے سامنے توراۃ وانجیل کی وہ آیتیں «الَّذِینَ یَتَّبِعُونَ الرَّسُولَ النَّبِیَّ الْأُمِّیَّ الَّذِی یَجِدُونَہُ مَکْتُوبًا عِندَہُمْ فِی التَّوْرَاۃِ وَالْإِنجِیلِ» إلخ ۱؎ (7-الأعراف:157) رکھ دیں جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کو ظاہر کرنے والی تھیں ۔ اس کے بعد کی آیت کا مطلب یہ ہے کہ ’ اگر اس فصیح وبلیغ جامع بالغ حق کلام کو ہم کسی عجمی پر نازل فرماتے پھر بھی کوئی شک ہی نہیں ہوسکتا تھا کہ یہ ہمارا کلام ہے ۔ مگر مشرکین قریش اپنے کفر اور اپنی سرکشی میں اتنے بڑھ گئے ہیں کہ اس وقت بھی وہ ایمان نہ لاتے ‘ ۔ جیسے فرمان ہے «وَلَوْ فَتَحْنَا عَلَیْہِم بَابًا مِّنَ السَّمَاءِ فَظَلٰوا فِیہِ یَعْرُجُونَ لَقَالُوا إِنَّمَا سُکِّرَتْ أَبْصَارُنَا بَلْ نَحْنُ قَوْمٌ مَّسْحُورُونَ» ۱؎ (15-الحجر:14،15) کہ ’ اگر آسمان کا دروازہ بھی ان کے لیے کھول دیا جاتا اور یہ خود چڑھ کر جاتے تب بھی یہی کہتے ہمیں نشہ پلا دیا گیا ہے ۔ ہماری آنکھوں پر پردہ ڈال دیا گیا ہے ‘ ۔ اور آیت میں ہے «وَلَوْ أَنَّنَا نَزَّلْنَا إِلَیْہِمُ الْمَلَائِکَۃَ وَکَلَّمَہُمُ الْمَوْتَیٰ وَحَشَرْ‌نَا عَلَیْہِمْ کُلَّ شَیْءٍ قُبُلًا مَّا کَانُوا لِیُؤْمِنُوا» ۱؎ (6-الأنعام:111) ’ اگر ان کے پاس فرشتے آ جاتے اور مردے بول اٹھتے تب بھی انہیں ایمان نصیب نہ ہوتا ‘ ۔ «إِنَّ الَّذِینَ حَقَّتْ عَلَیْہِمْ کَلِمَتُ رَ‌بِّکَ لَا یُؤْمِنُونَ وَلَوْ جَاءَتْہُمْ کُلٰ آیَۃٍ حَتَّیٰ یَرَ‌وُا الْعَذَابَ الْأَلِیمَ» ۱؎ (10-یونس:96-97) ’ ان پر عذاب کا کلمہ ثابت ہو چکا ، عذاب ان کا مقدر ہو چکا اور ہدایت کی راہ مسدود کر دی گئی ‘ ۔