سورة الفرقان - آیت 4

وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِنْ هَٰذَا إِلَّا إِفْكٌ افْتَرَاهُ وَأَعَانَهُ عَلَيْهِ قَوْمٌ آخَرُونَ ۖ فَقَدْ جَاءُوا ظُلْمًا وَزُورًا

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور کافروں نے کہا کہ یہ قرآن سوائے جھوٹ (٤) کے کچھ نہیں ہے جسے اس نے گھڑ لیا ہے اور کچھ دوسرے لوگوں نے اس کام میں اس کی مدد کی ہے، پس ان لوگوں نے ظلم اور کذب بیانی سے کام لیا ہے۔

ابن کثیر - حافظ عماد الدین ابوالفداء ابن کثیر صاحب

خود فریب مشرک خود فریب مشرکین ایک جہالت اوپر کی آیتوں میں بیان ہوئی ۔ جو ذات الٰہی کی نسبت تھی ۔ یہاں دوسری جہالت بیان ہو رہی ہے جو ذات رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت کہ وہ کہتے ہیں کہ اس قرآن کو تو اس نے اوروں کی مدد سے خود ہی جھوٹ موٹ گھڑ لیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یہ ان کا ظلم اور جھوٹ ہے جس کے باطل ہونے کا خود انہیں بھی علم ہے ۔ جو کچھ کہتے ہیں وہ خود اپنی معلومات کے بھی خلاف کہتے ہیں ۔ کبھی ہانک لگانے لگتے ہیں کہ اگلی کتابوں کے قصے اس نے لکھوا لئے ہیں ، وہی صبح شام اس کی مجلس میں پڑھے جا رہے ہیں ۔ یہ جھوٹ وہ ہے جس میں کسی کو کوئی شک نہ ہو سکے ۔ اس لیے کہ صرف اہل مکہ ہی نہیں بلکہ دنیا جانتی ہے کہ ہمارے نبی امی تھے نہ لکھنا جانتے تھے نہ پڑھنا ۔ چالیس سال کی نبوت سے پہلے کی زندگی آپ نے انہی لوگوں میں گزاری تھی اور وہ اس طرح کہ اتنی مدت میں ایک واقعہ بھی آپ کی زندگی میں یا ایک لمحہ بھی ایسا نہ تھا جس پر انگلی اٹھا سکے ۔ ایک ایک وصف آپ کا وہ تھا جس پر زمانہ شیدا تھا جس پر اہل مکہ رشک کرتے تھے ۔ آپ کی عام مقبولیت اور محبوبیت ، بلند اخلاق اور خوش معاملگی اتنی بڑھی ہوئی تھی کہ ہر ایک دل میں آپ کے لیے جگہ تھی ۔ عام زبانیں آپ کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم امین کے پیارے خطاب سے پکارتی تھیں ، دنیا آپ کے قدموں تلے آنکھیں بچھاتی تھی ۔ کون سا دل تھا جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا گھر نہ ہو ، کون سی آنکھ تھی جس میں احمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت نہ ہو ؟ کون سا مجمع تھا جس میں آپ کا ذکر خیر نہ ہو ؟ کون وہ شخص تھا جو آپ کی بزرگی ، صداقت ، امانت ، نیکی اور بھلائی کا قائل نہ ہو ؟ پھر جب کہ اللہ کی بلند ترین عزت سے آپ معزز کئے گئے ۔ آسمانی وحی کے آپ امین بنائے گئے تو صرف باپ دادوں کی روش کو پامال ہوتے ہوئے دیکھ کر یہ بےوقوف بےپیندے لوٹے کی طرح لڑھک گئے ، تھالی کے بینگن کی طرح ادھر سے ادھر ہو گئے ، لگے باتیں بنانے ، اور عیب جوئی کرنے لیکن جھوٹ کے پاؤں کہاں ؟ کبھی آپ کو شاعر کہتے ، کبھی ساحر اور کبھی کذاب ۔ حیران تھے کہ کیا کہیں اور کس طرح اپنی جاہلانہ روش کو باقی رکھیں اور اپنے معبودان باطل کے جھنڈے اوندھے نہ ہونے دیں اور کس طرح ظلم کدہ دنیا کو نور الہٰی سے نہ جگمگانے دیں ؟ اب انہیں جواب ملتا ہے کہ قرآن کی سچی حقائق پہ مبنی اور سچی خبریں اللہ کی دی ہوئی ہیں جو علام الغیوب ہے ، جس سے ایک ذرہ پوشیدہ نہیں کہ اس میں ماضی کے بیان سبھی سچ ہیں ۔ جو آئندہ کی خبر اس میں ہے وہ بھی سچ ہے ۔ اللہ کے سامنے ہو چکی ہوئی اور ہونے والی بات یکساں ہے ۔ وہ غیب کو بھی اسی طرح جانتا ہے جس طرح ظاہر کو ۔ اس کے بعد اپنی شان غفاریت کو اور شان رحم و کرم کو بیان فرمایا تاکہ بدلوگ بھی اس سے مایوس نہ ہوں ۔ کچھ بھی کیا ہو ، اب بھی اس کی طرف جھک جائیں ، توبہ کریں ، اپنے کئے پر پچھتائیں ۔ نادم ہوں ، اور رب کی رضا چاہیں ۔ رحمت رحیم کے قربان جائیے کہ ایسے سرکش و دشمن ، اللہ و رسول پر بہتان باز ، اس قدر ایذائیں دینے والے لوگوں کو بھی اپنی عام رحمت کی دعوت دیتا ہے اور اپنے کرم کی طرف انہیں بلاتا ہے ۔ وہ اللہ کو برا کہیں ، وہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو برا کہیں ، وہ کلام اللہ پر باتیں بنائیں اور اللہ تعالیٰ انہیں اپنی رحمت کی طرف رہنمائی کرے ، اپنے فضل و کرم کی طرف دعوت دے ، اسلام اور ہدایت ان پر پیش کرے ، اپنی بھلی باتیں ان کو سجھائے اور سمجھائے ۔ چنانچہ اور آیت میں عیسائیوں کی تثلیث پرستی کا ذکر کر کے ان کی سزا کا بیان کرتے ہوئے فرمایا «اَفَلَا یَتُوْبُوْنَ اِلَی اللّٰہِ وَیَسْتَغْفِرُوْنَہٗ وَاللّٰہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ» ۱؎ (5-المائدۃ:74) ’ یہ لوگ کیوں اللہ سے توبہ نہیں کرتے ؟ اور کیوں اس کی طرف جھک کر اس سے اپنے گناہوں کی معافی طلب نہیں کرتے ؟ وہ تو بڑا ہی بخشنے والا اور بہت ہی مہربان ہے ۔ ‘ مومنوں کو ستانے اور انہیں فتنے میں ڈالنے والوں کا ذکر کر کے سورۃ البروج میں فرمایا کہ اگر ایسے لوگ بھی توبہ کر لیں ، اپنے برے کاموں سے ہٹ جائیں ، باز آئیں تو میں بھی ان پر سے اپنے عذاب ہٹالوں گا اور رحمتوں سے نواز دونگا ۔ امام حسن بصری رحمہ اللہ نے کیسے مزے کی بات بیان فرمائی ہے ۔ آپ فرماتے ہیں : اللہ کے رحم و کرم کو دیکھو ، یہ لوگ اس کے نیک چہیتے بندوں کو ستائیں ، ماریں ، پیٹیں ، قتل کریں اور وہ انہیں توبہ کی طرف اور اپنے رحم و کرم کی طرف بلائے ! «فسبحانہ ما اعظم شانہ» ۔