وَلَوْلَا إِذْ سَمِعْتُمُوهُ قُلْتُم مَّا يَكُونُ لَنَا أَن نَّتَكَلَّمَ بِهَٰذَا سُبْحَانَكَ هَٰذَا بُهْتَانٌ عَظِيمٌ
اور جب تم لوگوں نے یہ جھوٹی خبر سنی تو کیوں نہیں کہا، ہمارے لیے یہ مناسب نہیں کہ ایسی بات کریں اے ہمارے رب ! تو تمام عیوب سے پاک ہے، یہ تو بہت بڑا بہتا ہے۔
پہلے تحقیق کرو پھر بولو پہلے تو نیک گمانی کا حکم دیا ۔ یہاں دوسرا حکم دے رہا ہے کہ ’ بھلے لوگوں کی شان میں کوئی برائی کا کلمہ بغیر تحقیق ہرگز نہ نکلنا چاہیئے ، برے خیالات ، گندے الزامات اور شیطانی وسوسوں سے دور رہنا چاہیئے ۔ کبھی ایسے کلمات زبان سے نہ نکالنے چاہیں ، گو دل میں کوئی ایسا وسوسہ شیطانی پیدا بھی ہو تو زبان قابو میں رکھنی چاہیئے ‘ ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ { اللہ تعالیٰ نے میری امت کے دلوں میں پیدا ہونے والے وسوسوں سے درگزر فرما لیا ہے ، جب تک وہ زبان سے نہ کہیں یا عمل میں نہ لائیں } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:2528) تمہیں چاہیئے تھا کہ ایسے بے ہودہ کلام کو سنتے ہی کہہ دیتے کہ ہم ایسی لغویات سے اپنی زبان نہیں بگاڑتے ۔ ہم سے یہ بے ادبی نہیں ہو سکتی کہ اللہ کے خلیل اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی صاحبہ کی نسبت کوئی ایسی لغویات کہیں ، اللہ کی ذات پاک ہے ۔ دیکھو خبردار آئندہ کبھی ایسی حرکت نہ ہو ورنہ ایمان کے ضبط ہونے کا اندیشہ ہے ۔ ہاں اگر کوئی شخص ایمان سے ہی کورا ہو تو وہ تو بے ادب ، گستاخ اور بھلے لوگوں کی اہانت کرنے والا ہوتا ہی ہے ۔ احکام شرعیہ کو اللہ تعالیٰ تمہارے سامنے کھول کھول کر بیان فرما رہا ہے ۔ وہ اپنے بندوں کی مصلحتوں سے واقف ہے ۔ اس کا کوئی حکم حکمت سے خالی نہیں ہوتا ۔