قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ
یقینا ان مومنوں نے فلاح (١) پالی۔
دس آیتیں اور جنت کی ضمانت نسائی ، ترمذی اور مسند احمد میں مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جب وحی اترتی تو ایک ایسی میٹھی میٹھی ، بھینی بھینی ، ہلکی ہلکی سی آواز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سنی جاتی جیسے شہد کی مکھیوں کے اڑنے کی بھنبھناہٹ کی ہوتی ہے ۔ ایک مرتبہ یہی حالت طاری ہوئی ۔ تھوڑی دیر کے بعد جب وحی اتر چکی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبلہ کی طرف متوجہ ہو کر اپنے دونوں ہاتھ اٹھا کر یہ دعا پڑھی کہ اے اللہ تو ہمیں زیادہ کر ، کم نہ کر ، ہمارا اکرام کر ، اہانت نہ کر ، ہمیں انعام عطا فرما ، محروم نہ رکھ ، ہمیں دوسروں کے مقابلے میں فضیلت دے ، ہم پر دوسروں کو پسند نہ فرما ، ہم سے خوش ہو جا اور ہمیں خوش کر دے ۔ عربی کے الفاظ یہ ہیں ۔ دعا «الہم زدنا ولا تنقصنا واکرمنا ولاتہنا واعطنا ولاتحرمنا واثرنا ولاتوثرعلینا وارض عناوارضنا» پھر فرمایا مجھ پر دس آیتیں اتری ہیں ، جو ان پر جم گیا وہ جنتی ہو گیا ۔ پھر آپ نے سورۃ المومنوں کی ابتدائی دس آیتیں تلاوت فرمائیں ۔ (مسند احمد:34/1:ضعیف) امام ترمذی رحمتہ اللہ علیہ اس حدیث کو منکر بتاتے ہیں ، کیونکہ اس کا راوی صرف یونس بن سلیم ہے جو محدثین کے نزدیک معروف نہیں ۔ نسائی میں ہے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عادات واخلاق کی بابت سوال ہوا تو آپ رضی اللہ عنہا نے فرمایا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا خلق قرآن تھا ، پھر ان آیتوں کی «وَالَّذِینَ ہُمْ عَلَیٰ صَلَوَاتِہِمْ یُحَافِظُونَ» ( 23-المؤمنون : 9 ) ۔ تک تلاوت فرمائی ۔ اور فرمایا یہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق تھے ۔ مروی ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے جنت عدن پیدا کی اور اس میں درخت وغیرہ اپنے ہاتھ سے لگائے تو اسے دیکھ کر فرمایا کچھ بول ۔ اس نے یہی آیتیں تلاوت کیں جو قرآن میں نازل ہوئیں ۔ سیدنا ابوسعید رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ اس کی ایک اینٹ سونے کی اور دوسری چاندی کی ہے ۔ فرشتے اس میں جب داخل ہوئے ، کہنے لگے واہ واہ یہ تو بادشاہوں کی جگہ ہے ۔ اور روایت میں ہے اس کا گارہ مشک کا تھا ۔ (مسند بزار،3508:ضعیف) اور روایت میں ہے کہ اس میں وہ وہ چیزیں ہیں جو نہ کسی آنکھ نے دیکھیں ، نہ کسی دل میں سمائیں ۔ (طبرانی کبیر:11439:ضعیف) اور روایت میں ہے کہ جنت نے جب ان آیتوں کی تلاوت کی تو جناب باری نے فرمایا مجھے اپنی بزرگی اور جلال کی قسم تجھ میں بخیل ہرگز داخل نہیں ہوسکتا ۔ (طبرانی:12723:ضعیف) اور حدیث میں ہے کہ اس کی ایک اینٹ سفید موتی کی ہے اور دوسری سرخ یاقوت کی اور تیسری سبز ذمرد کی ۔ اس کا گارہ مشک کا ہے اس کی گھاس زعفران ہے ۔ اس روایت کے آخر میں ہے کہ اس حدیث کو بیان فرما کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت «وَمَنْ یٰوْقَ شُحَّ نَفْسِہٖ فَاُولٰیِٕکَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ» ( 59- الحشر : 9 ) پڑھی ۔(صفۃ الجنۃ لابن ابی الدنیا:20:ضعیف) الغرض فرمان ہے کہ مومن مراد کو پہنچ گئے ، وہ سعادت پا گئے ، انہوں نے نجات پالی ۔ ان مومنوں کی شان یہ ہے کہ وہ اپنی نمازوں میں اللہ کا خوف رکھتے ہیں خشوع اور سکون کے ساتھ نماز ادا کرتے ہیں ۔ دل حاضر رکھتے ہیں ، نگاہیں نیچی ہوتی ہیں ، بازو جھکے ہوئے ہوتے ہیں ۔ محمد بن سیرین رحمتہ اللہ علیہ کا قول ہے کہ اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس آیت کے نازل ہونے سے پہلے اپنی نگاہیں آسمان کی طرف اٹھاتے تھے ۔ لیکن اس آیت کے نازل ہونے کے بعد ان کی نگاہیں نیچی ہو گئیں ، سجدے کی جگہ سے اپنی نگاہ نہیں ہٹاتے تھے ۔ اور یہ بھی مروی ہے کہ جائے نماز سے ادھر ادھر ان کی نظر نہیں جاتی تھی اگر کسی کو اس کے سوا عادت پڑگئی ہو تو اسے چاہے کہ اپنی نگاہیں نیچی کر لے ۔ ایک مرسل حدیث میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس آیت کے نازل ہونے سے پہلے ایسا کیا کرتے تھے ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:25425:مرسل) پس یہ خضوع و خشوع اسی شخص کو حاصل ہوسکتا ہے ، جس کا دل فارغ ہو ، خلوص حاصل ہو اور نماز میں پوری دلچسپی ہو اور تمام کاموں سے زیادہ اسی میں دل لگتا ہو ۔ چنانچہ حدیث شریف میں ہے رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں مجھے خوشبو اور عورتیں زیادہ پسند ہیں اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں رکھ دی گئی ہے (مسند احمد:128/3:حسن) ایک انصاری صحابی رضی اللہ تعالیٰ نے نماز کے وقت اپنی لونڈی سے کہا کہ پانی لاؤ ، نماز پڑھ کر راحت حاصل کروں تو سننے والوں کو ان کی یہ بات گراں گزری ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا رسول صلی اللہ علیہ وسلم بلال رضی اللہ عنہا سے فرماتے تھے ۔ اے بلال اٹھو اور نماز کے ساتھ ہمیں راحت پہنچاؤ ۔ مومنوں کے اوصاف پھر اور وصف بیان ہوا کہ وہ باطل ، شرک ، گناہ اور ہر ایک بیہودہ اور بے فائدہ قول وعمل سے بچتے ہیں ۔ جیسے فرمان ہے «وَاِذَا مَرٰوْا باللَّغْوِ مَرٰوْا کِرَامًا» ( 25- الفرقان : 72 ) وہ لغو بات سے بزرگانہ گزر جاتے ہیں وہ برائی اور بےسود کاموں سے اللہ کی روک کی وجہ سے رک جاتے ہیں ۔ اور انکا یہ وصف ہے کہ یہ مال کی زکوٰۃ ادا کرتے ہیں ۔ اکثر مفسرین یہی فرماتے ہیں لیکن اس میں ایک بات یہ ہے کہ یہ آیت مکی ہے اور زکوٰۃ کی فرضیت ہجرت کے دوسرے سال میں ہوتی ہے پھر مکی آیت میں اس کا بیان کیسے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اصل زکوٰۃ تو مکہ میں واجب ہو چکی تھی ہاں اس کی مقدار ، مال کا نصاب وغیرہ یہ سب احکام مدینے میں مقرر ہوئے ۔ دیکھئیے سورۃ الانعام بھی مکی ہے اور اس میں یہی زکوٰۃ کا حکم موجود ہے « وَآتُوا حَقَّہُ یَوْمَ حَصَادِہِ وَلَا تُسْرِفُوا » ۔یعنی کھیتی کے کٹنے والے دن اس کی زکوٰۃ ادا کر دیا کرو ۔(6-الأنعام:141) ہاں یہ بھی معنی ہو سکتے ہیں کہ مراد زکوٰۃ سے یہاں نفس کو شرک و کفر کے میل کچیل سے پاک کرنا ہو ۔ جیسے فرمان ہے آیت «قَدْ أَفْلَحَ مَن زَکَّاہَا وَقَدْ خَابَ مَن دَسَّاہَا» (91-الشمس:9-10) ، جس نے اپنے نفس کو پاک کر لیا اس نے فلاح پالی ۔ اور جس نے اسے خراب کر لیا وہ نامراد ہوا ۔ یہی ایک قول «و قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ یُوحَیٰ إِلَیَّ أَنَّمَا إِلٰہُکُمْ إِلٰہٌ وَاحِدٌ فَاسْتَقِیمُوا إِلَیْہِ وَاسْتَغْفِرُوہُ وَوَیْلٌ لِّلْمُشْرِکِینَ الَّذِینَ لَا یُؤْتُونَ الزَّکَاۃَ وَہُم بِالْآخِرَۃِ ہُمْ کَافِرُونَ» ( 41- فصلت : 7-6 ) میں بھی ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ آیت میں دونوں زکاتیں ایک ساتھ مراد لی جائیں ۔ یعنی زکوٰۃ نفس بھی اور زکوٰۃ مال بھی ۔ فی الواقع مومن کامل وہی ہے جو اپنے نفس کو بھی پاک رکھے اور اپنے مال کی بھی زکوٰۃ دے «واللہ اعلم» ۔