وَلَا يَزَالُ الَّذِينَ كَفَرُوا فِي مِرْيَةٍ مِّنْهُ حَتَّىٰ تَأْتِيَهُمُ السَّاعَةُ بَغْتَةً أَوْ يَأْتِيَهُمْ عَذَابُ يَوْمٍ عَقِيمٍ
اور اہل کفر ہمیشہ قرآن کی جانب سے شک میں پڑے رہیں گے، یہاں تک کہ قیامت انہیں اچانک آلے گی، یا کسی منحوس دن کا عذاب ان پر نازل ہوجائے گا۔
کافروں کے دل سے شک و شبہ نہیں جائے گا یعنی کافروں کو جو شک شبہ اللہ کی اس وحی یعنی قرآن میں ہے وہ ان کے دلوں سے نہیں جائے گا ۔ شیطان یہ غلط گمان قیامت تک ان کے دلوں سے نہ نکلنے دے گا ۔ قیامت اور اس کے عذاب ان کے پاس ناگہاں آ جائیں گے ۔ اس وقت یہ محض بے شعور ہوں گے جو مہلت انہیں مل رہی ہے اس سے یہ مغرور ہو گئے ۔ جس قوم کے پاس اللہ کے عذاب آئے اسی حالت میں آئے کہ وہ ان سے نڈر بلکہ بےپروا ہو گئے تھے اللہ کے عذابوں سے غافل وہی ہوتے ہیں جو پورے فاسق اور اعلانیہ مجرم ہوں ۔ یا انہیں بے خبر دن عذاب پہنچے جو دن ان کے لیے منحوس ثابت ہو گا ۔ بعض کا قول ہے کہ اس سے مراد یوم بدر ہے اور بعض نے کہا ہے مراد اس سے قیامت کا دن ہے یہی قول صحیح ہے گو بدر کا دن بھی ان کے لیے عذاب اللہ کا دن تھا ۔ اس دن صرف اللہ کی بادشاہت ہوگی ۔ جیسے اور آیت میں ہے «مَالِکِ یَوْمِ الدِّینِ» ۱؎ (1-الفاتحہ:4) ’ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن کا مالک ہے ‘ ۔ اور آیت میں ہے «الْمُلْکُ یَوْمَئِذٍ الْحَقٰ لِلرَّحْمٰنِ وَکَانَ یَوْمًا عَلَی الْکَافِرِینَ عَسِیرًا» ۱؎ (25-الفرقان:26) ’ اس دن رحمن کا ہی ملک ہو گا اور وہ دن کافروں پر نہایت ہی گراں گزرے گا ‘ ۔ فیصلے خود اللہ کرے گا ۔ جن کے دلوں میں اللہ پر ایمان رسول کی صداقت اور ایمان کے مطابق جن کے اعمال تھے جن کے دل اور عمل میں موافقت تھی ۔ جن کی زبانیں دل کے مانند تھیں وہ جنت کی نعمتوں میں مالا مال ہوں گے جو نعمتیں نہ فنا ہوں نہ گھٹیں نہ بگڑیں نہ کم ہوں ۔ جن کے دلوں میں حقانیت سے کفر تھا ، جو حق کو جھٹلاتے تھے ، نبیوں کے خلاف کرتے تھے ، اتباع حق سے تکبر کرتے تھے ان کے تکبر کے بدلے انہیں ذلیل کرنے والے عذاب ہوں گے ۔ جیسے فرمان ہے آیت «اِنَّ الَّذِیْنَ یَسْتَکْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِیْ سَیَدْخُلُوْنَ جَہَنَّمَ دٰخِرِیْنَ» ۱؎ (40-غافر:60) ’ جو لوگ میری عبادتوں سے سرکشی کرتے ہیں وہ ذلیل ہو کر جہنم میں داخل ہوں گے ‘ ۔