إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا وَيَصُدُّونَ عَن سَبِيلِ اللَّهِ وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ الَّذِي جَعَلْنَاهُ لِلنَّاسِ سَوَاءً الْعَاكِفُ فِيهِ وَالْبَادِ ۚ وَمَن يُرِدْ فِيهِ بِإِلْحَادٍ بِظُلْمٍ نُّذِقْهُ مِنْ عَذَابٍ أَلِيمٍ
بیشک جن لوگوں نے کفر کی راہ (١٤) اختیار کی، اور لوگوں کو اللہ کی راہ سے روکتے ہیں اور اس مسجد حرام سے روکتے ہیں جسے ہم نے تمام لوگوں کے لیے بنایا ہے جس میں سکونت پذیر اور باہر سے آنے والا دونوں برابر ہیں، اور جو کوئی اس میں اللہ کے حدود کو تجاوز کرتے ہوئے شرک و بدعت کی راہ اختیار کرے گا، ہم اسے دردناک عذاب کا مزا چکھائیں گے۔
مسجدالحرام سے روکنے والے اللہ تعالیٰ کافروں کے اس فعل کی تردید کرتا ہے جو وہ مسلمانوں کو مسجد الحرام سے روکتے تھے وہاں انہیں احکام حج ادا کرنے سے باز رکھتے تھے «وَمَا کَانُوا أَوْلِیَاءَہُ إِنْ أَوْلِیَاؤُہُ إِلَّا الْمُتَّقُونَ وَلٰکِنَّ أَکْثَرَہُمْ لَا یَعْلَمُونَ» ۱؎ (8-الانفال:34) ’ باوجود اس کے اولیاء اللہ کے ہونے کا دعویٰ کرتے تھے حالانکہ اولیاء وہ ہیں جن کے دلوں میں اللہ کا ڈر ہو ‘ ۔ اس سے معلوم ہوتا کہ یہ ذکر مدینے شریف کا ہے ۔ جیسے سورۃ البقرہ کی آیت «یَسْأَلُونَکَ عَنِ الشَّہْرِ الْحَرَامِ قِتَالٍ فِیہِ قُلْ قِتَالٌ فِیہِ کَبِیرٌ وَصَدٌّ عَن سَبِیلِ اللہِ وَکُفْرٌ بِہِ وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَإِخْرَاجُ أَہْلِہِ مِنْہُ أَکْبَرُ عِندَ اللہِ » ۱؎ (2-البقرۃ:217) ، میں ہے یہاں فرمایا کہ ’ باوجود کفر کے پھر یہ بھی فعل ہے کہ اللہ کی راہ سے اور مسجد الحرام سے مسلمانوں کو روکتے ہیں جو درحقیقت اس کے اہل ہیں ‘ ۔ یہی ترتیب اس آیت کی ہے «لَّذِینَ آمَنُوا وَتَطْمَئِنٰ قُلُوبُہُم بِذِکْرِ اللہِ أَلَا بِذِکْرِ اللہِ تَطْمَئِنٰ الْقُلُوبُ» ۱؎ (13-الرعد:28) یعنی ’ ان کی صفت یہ ہے کہ ان کے دل ذکر اللہ سے مطمئن ہو جاتے ہیں ‘ ۔ مسجد الحرام جو اللہ نے سب کے لیے یکساں طور پر باحرمت بنائی ہے مقیم اور مسافر کے حقوق میں کوئی کمی زیادتی نہیں رکھی ۔ اہل مکہ مسجد الحرام میں اترسکتے ہیں اور باہر والے بھی ۔ وہاں کی منزلوں میں وہاں کے باشندے اور بیرون ممالک کے لوگ سب ایک ہی حق رکھتے ہیں ۔ اس مسئلے میں امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ تو فرمانے لگے مکے کی حویلیاں ملکیت میں لائی جا سکتی ہیں ۔ ورثے میں بٹ سکتی ہیں اور کرائے پر بھی دی جا سکتی ہیں ۔ دلیل یہ دی کہ { اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سوال کیا کہ کل آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ہی مکان میں اتریں گے ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ { عقیل نے ہمارے لیے کون سی حویلی چھوڑی ہے ؟ پھر فرمایا کافر مسلمان کا ورث نہیں ہوتا اور نہ مسلمان کافر کا} } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4282) اور دلیل یہ ہے کہ امیر المؤمنین عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے صفوان بن امیہ کامکان چار ہزار درہم میں خرید کر وہاں جیل خانہ بنایا تھا ۔ طاؤس اور عمرو بن دینار بھی اس مسئلے میں امام صاحب کے ہم نوا ہیں ۔ امام اسحاق بن راہویہ اس کے خلاف کہتے ہیں کہ ورثے میں بٹ نہیں سکتے نہ کرائے پر دئیے جا سکتے ہیں ۔ اسلاف میں سے ایک جماعت یہ کہتی ہے مجاہد اور عطا رحمہ اللہ علیہم کا یہی مسلک ہے ۔ اس کی دلیل ابن ماجہ کی یہ حدیث ہے { سیدنا علقمہ بن نضلہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں صدیقی اور فاروقی خلافت میں مکے کی حویلیاں آزاد اور بے ملکیت استعمال کی جاتی رہیں اگر ضرورت ہوتی تو رہتے ورنہ اوروں کو بسنے کے لیے دے دیتے } ۔ ۱؎ (سنن ابن ماجہ:3107،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں نہ تو مکہ شریف کے مکانوں کا بیچنا جائز ہے نہ ان کا کرایہ لینا ۔ عطا رحمہ اللہ بھی حرم میں کرایہ لینے کو منع کرتے تھے ۔ سیدنا عمربن خطاب رضی اللہ عنہ مکہ شریف کے گھروں کے دروازے رکھنے سے روکتے تھے کیونکہ صحن میں حاجی لوگ ٹھیرا کرتے تھے ۔ سب سے پہلے گھر کا دروازہ سہیل بن عمرو نے بنایا عمر رضی اللہ عنہ نے اسی وقت انہیں حاضری کا حکم بھیجا انہوں نے آ کر کہا مجھے معاف فرمایا جائے میں سوداگر شخص ہوں میں نے ضرورتاً یہ دروازے بنائے ہیں تاکہ میرے جانور میرے بس میں رہیں ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا پھر خیر ہم اسے تیرے لیے جائز رکھتے ہیں ۔ اور روایت میں حکم فاروقی رضی اللہ عنہ ان الفاظ میں مروی ہے کہ اہل مکہ اپنے مکانوں کے دروازے نہ رکھو تاکہ باہر کے لوگ جہاں چاہیں ٹھیریں ۔ عطا رحمہ اللہ فرماتے ہیں شہری اور غیروطنی ان میں برابر ہیں جہاں چاہیں اتریں ۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں مکے شریف کے لوگ گھروں کا کرایہ کھانے والا اپنے پیٹ میں آگ بھرنے والا ہے ۔ امام احمد رحمتہ اللہ علیہ نے ان دونوں کے درمیان کا مسلک پسند فرمایا یعنی ملکیت کو اور ورثے کو تو جائز بتایا ہاں کرایہ کو ناجائز کہا ہے اس سے دلیلوں میں جمع ہو جاتی ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» «بِإِلْحَادٍ» میں “با“ زائد ہے جیسے «تَـنْـبُتُ بِالدٰہُنِ» ۱؎ (23-المؤمنون:20) میں ۔ اور اعشی کے شعر «ضَمَنَتْ بِرِزْقِ عِیَالِناً اًرْحُنَا» ، میں یعنی ہمارے گھرانے کی روزیاں ہمارے نیزوں پر موقوف ہیں الخ ، اور شعروں کے اشعار میں ”با“ کا ایسے موقعوں پر زائد آنا مستعمل ہوا ہے لیکن اس سے بھی عمدہ بات یہ ہے کہ ہم کہیں کہ یہاں کا فعل «یَہُمٰ» کے معنی کا متضمن ہے اس لیے ”با“ کے ساتھ متعدی ہوا ہے ۔ الحاد سے مراد کبیرہ شرمناک گناہ ہے ۔ «بِظُلْمٍ» سے مراد قصداً ہے تاویل کی روسے نہ ہونا ہے ۔ اور معنی شرک کے غیر اللہ کی عبادت کے بھی کئے گئے ہیں ۔ یہ بھی مطلب ہے کہ حرم میں اللہ کے حرام کئے ہوئے کام کو حلال سمجھ لینا جیسے گناہ قتل بے جا ظلم وستم وغیرہ ۔ ایسے لوگ درد ناک عذابوں کے سزاوار ہیں ۔ مجاہد رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں جو بھی یہاں برا کام کرے یہ حرم شریف کی خصوصیت ہے کہ غیروطنی لوگ جب کسی بدکام کا ارادہ بھی کر لیں تو بھی انہیں سزا ہوتی ہے چاہے اسے عملاً نہ کریں ۔ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اگر کوئی شخص عدن میں ہو اور حرم میں الحاد وظلم کا ارادہ رکھتا ہو تو بھی اللہ اسے درد ناک عذاب کا مزہ چکھائے گا ۔ شعبہ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں اس نے تو اس کو مرفوع بیان کیا تھا لیکن میں اسے مرفوع نہیں کرتا ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:141/17:صَحِیحٌ عَلَی شَرْطِ الْبُخَارِیِّ) اس کی اور سند بھی ہے جو صحیح ہے اور موقوف ہونا بہ نسبت مرفوع ہونے کے زیادہ ٹھیک ہے عموماً قول سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے ہی مروی ہے ، «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ اور روایت میں ہے کسی پر برائی کے صرف سے برائی نہیں لکھی جاتی لیکن اگر دور دراز مثلا عدن میں بیٹھ کر بھی یہاں کے کسی شخص کے قتل کا ارادہ کرے تو اللہ اسے درد ناک عذاب میں مبتلا کرے گا ۔ مجاہد رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں ہاں یا نہیں کہنے پر یہاں قسمیں کھانا بھی الحاد میں داخل ہے ۔ سعید بن جبیر رحمتہ اللہ علیہ کا فرمان ہے کہ اپنے خادم کو یہاں گالی دینا بھی الحاد میں ہے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا قول ہے امیر شخص کا یہاں آ کر تجارت کرنا ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں مکے میں اناج کا بیچنا ۔ ابن حبیب بن ابوثابت فرماتے ہیں گراں فروشی کے لیے اناج کو یہاں روک رکھنا ۔ ابن ابی حاتم میں بھی فرمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہی منقول ہے ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:2020،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں { یہ آیت عبداللہ بن انیس کے بارے میں اتری ہے اسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مہاجر اور ایک انصار کے ساتھ بھیجا تھا ایک مرتبہ ہر ایک اپنے اپنے نسب نامے پر فخر کرنے لگا اس نے غصے میں آ کر انصاری کو قتل کر دیا اور مکے کی طرف بھاگ کھڑا ہوا اور دین اسلام چھوڑ بیٹھا ۔ تو مطلب یہ ہو گا کہ جو الحاد کے بعد مکہ کی پناہ لے } ۔ ۱؎ (تفسیر ابن ابی حاتم:ضعیف) ان آثار سے گویہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ سب کام الحاد میں سے ہیں لیکن حقیقتاً یہ ان سب سے زیادہ اہم بات ہے بلکہ اس سے بڑی چیز پر اس میں تنبیہہ ہے ۔ اسی لیے جب ہاتھی والوں نے بیت اللہ شریف کی خرابی کا ارادہ کیا تو اللہ تعالیٰ نے ان پر پرندوں کے غول کے غول بھیج دئے «تَرْمِیہِم بِحِجَارَۃٍ مِّن سِجِّیلٍ فَجَعَلَہُمْ کَعَصْفٍ مَّأْکُولٍ» ۱؎ (105-الفیل:4،5) جنہوں نے ان پر کنکریاں پھینک کر ان کا بھس اڑا دیا اور وہ دوسروں کے لیے باعث عبرت بنا دئے گئے ۔ چنانچہ حدیث میں ہے کہ { ایک لشکر اس بیت اللہ کے غزوے کے ارادے سے آئے گا جب وہ بیدا میں پہنچیں گے تو سب کے سب مع اول آخر کے دھنسادئے جائیں گے } ۔ (صحیح بخاری:2118) الخ ۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں { آپ یہاں الحاد کرنے سے بچیں میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ یہاں ایک قریشی الحاد کرے گا اس کے گناہ اگر تمام جن و انس کے گناہوں سے تولے جائیں تو بھی بڑھ جائیں دیکھو خیال رکھو تم وہی نہ بن جانا } ۔ ۱؎ (مسند احمد:136/2:حسن) اور روایت میں یہ بھی ہے کے نصیحت آپ نے انہیں حطیم میں بیٹھ کر کی تھی ۔ ۱؎ (مسند احمد:196/2:حسن)