إِنَّ اللَّهَ يُدْخِلُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ يُحَلَّوْنَ فِيهَا مِنْ أَسَاوِرَ مِن ذَهَبٍ وَلُؤْلُؤًا ۖ وَلِبَاسُهُمْ فِيهَا حَرِيرٌ
بیشک اللہ اہل ایمان (١٣) اور عمل صالح کرنے والوں کو ایسی جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی، انہیں ان جنتوں میں سونے کے کنگن اور موتی کے زیور پہنائے جائیں گے، اور وہاں ان کا لباس ریشمی ہوگا۔
جنت کے محلات و باغات اوپر دوزخیوں کا ، ان کی سزاؤں کا ، ان کے طوق و زنجیر کا ، ان کے جلنے جھلسنے کا ، ان کے آگ کے لباس کا ذکر کر کے اب جنت کا ، وہاں کی نعمتوں کا اور وہاں کے رہنے والوں کا حال بیان فرما رہا ہے ۔ اللہ ہمیں اپنی سزاؤں سے بچائے اور جزاؤں سے نوازے آمین ! فرماتا ہے ’ ایمان اور نیک عمل کے بدلے جنت مل گئی جہاں کے محلات اور باغات کے چاروں طرف پانی کی نہریں لہریں مار رہی ہونگی جہاں چاہیں گے وہیں خودبخود ان کا رخ ہو جایا کرے گا سونے کے زیوروں سے سجے ہوئے ہوں گے موتیوں میں تل رہے ہوں گے ‘ ۔ متفق علیہ حدیث میں ہے { مومن کا زیور وہاں تک پہنچے گا جہاں تک وضو کا پانی پہنچتا ہے } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:250) کعب احبار رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جنت میں ایک فرشتہ ہے کہ جس کا نام بھی مجھے معلوم ہے وہ اپنی پیدائش سے مومنوں کے لیے زیور بنا رہا ہے اور قیامت تک اسی کام میں رہے گا اگر ان میں سے ایک کنگن بھی دنیا میں ظاہر ہو جائے تو سورج کی روشنی اسی طرح جاتی رہے جس طرح اس کے نکلنے سے چاند کی روشنی جاتی رہتی ہے ۔ دوزخیوں کے کپڑوں کا ذکر اوپر ہو چکا ہے جنتیوں کے کپڑوں کا ذکر ہو رہا ہے کہ وہ نرم چمکیلے ریشمی کپڑے پہنے ہوئے ہوں گے جسے سورۃ الدہر میں ہے کہ «عَالِیَہُمْ ثِیَابُ سُندُسٍ خُضْرٌ وَإِسْتَبْرَقٌ وَحُلٰوا أَسَاوِرَ مِن فِضَّۃٍ وَسَقَاہُمْ رَبٰہُمْ شَرَابًا طَہُورًا نَّ ہٰذَا کَانَ لَکُمْ جَزَاءً وَکَانَ سَعْیُکُم مَّشْکُورًا» ۱؎ (76-الانسان:،20،21) ’ ان کے لباس سبزریشمی ہوں گے چاندی کے کنگن ہوں گے اور شراب طہور کے جام پر جام پی رہے ہونگے ۔ یہ ہے تمہاری جزا اور یہ تمہارے بار اور سعی کا نتیجہ ‘ ۔ صحیح حدیث میں ہے { ریشم تم نہ پہنو جو اسے دنیا میں پہن لے گا وہ آخرت کے دن اس سے محروم رہے گا } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:5830) عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں جو اس دن ریشمی لباس سے محروم رہا وہ جنت میں نہ جائے گا کیونکہ جنت والوں کا یہی لباس ہے ان کو پاک بات سکھا دی گئی ۔ جیسے فرمان ہیں آیت «وَأُدْخِلَ الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ جَنَّاتٍ تَجْرِی مِن تَحْتِہَا الْأَنْہَارُ خَالِدِینَ فِیہَا بِإِذْنِ رَبِّہِمْ تَحِیَّتُہُمْ فِیہَا سَلَامٌ» ۱؎ (14-ابراھیم:23) ’ ایماندار بحکم الٰہی جنت میں جائیں گے جہاں ان کا تحفہ آپس میں سلام ہو گا ‘ ۔ اور آیت میں ہے «أُولٰئِکَ یُجْزَوْنَ الْغُرْفَۃَ بِمَا صَبَرُوا وَیُلَقَّوْنَ فِیہَا تَحِیَّۃً وَسَلَامًا» ۱؎ (25-الفرقان:75) ’ ہر دروازے سے فرشتے ان کے پاس آئیں گے اور سلام کر کے کہیں گے تمہارے صبر کا کیا ہی اچھا انجام ہوا ‘ ۔ اور جگہ فرمایا آیت «لَا یَسْمَعُوْنَ فِیْہَا لَغْوًا وَّلَا تَاْثِیْمًا اِلَّا قِیْلًا سَلٰمًا سَلٰمًا» ۱؎ (56-الواقعۃ:26،25) ’ وہاں کوئی لغو بات اور رنج دینے والی بات نہ سنیں گے بجز سلام اور سلامتی کے ‘ ۔ پس انہیں وہ مکان دے دیا گیا جہاں صرف دل لبھانے والی آوازیں اور سلام ہی سلام سنتے ہیں ۔ جیسے فرمان ہے وہاں مبارک سلامت کی آوازیں ہی آئیں گی برخلاف دوزخیوں کے کہ ہر وقت ڈانٹ ڈپٹ سنتے ہیں ، جھڑکے جاتے ہیں سرزنش کی جا رہی ہے کہ ایسے عذاب برداشت کرو وغیرہ ۔ اور انہیں وہ جگہ دی گئی کہ یہ نہال نہال ہو گئے اور بے ساختہ ان کی زبانوں سے اللہ کی حمد ادا ہونے لگی ۔ کیونکہ بےشمار بے نظیر رحمتیں پالیں ۔ صحیح حدیث میں ہے کہ { جیسے بے قصد و بے تکلف سانس آتا جاتا رہتا ہے اسی طرح بہشتیوں کو تسبیح وحمد کا الہام ہو گا } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:2835) بعض مفسیریں کا قول ہے کہ طیب کلام سے مراد قرآن کریم ہے اور « «لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ» » ہے حدیث کے ورد اور اذکار ہیں اور صراط حمید سے مراد اسلامی راستہ ہے یہ تفسیر بھی پہلی تفسیر کے خلاف نہیں ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔