وَزَكَرِيَّا إِذْ نَادَىٰ رَبَّهُ رَبِّ لَا تَذَرْنِي فَرْدًا وَأَنتَ خَيْرُ الْوَارِثِينَ
اور زکریا (٣٠) نے اپنے رب کو پکارا کہ میرے رب ! مجھے تنہا نہ چھوڑ دے اور تو تو سب سے اچھا وارث ہے۔
دعا اور بڑھاپے میں اولاد اللہ تعالیٰ زکریا علیہ السلام کا قصہ بیان فرماتا ہے کہ ’ انہوں نے دعا کی کہ مجھے اولاد ہو جو میرے بعد نبی بنے ‘ ۔ سورۃ مریم میں اور سورۃ آل عمران میں یہ واقعہ تفصیل سے ہے ۔ آپ علیہ السلام نے یہ دعا چھپا کر کی تھی ، ” مجھے تنہا نہ چھوڑ “ یعنی بے اولاد ۔ دعا کے بعد اللہ تعالیٰ کی ثناء کی جیسے کہ اس دعا کے لائق تھی ۔ اللہ تعالیٰ نے آپ علیہ السلام کی دعا قبول فرمائی ۔ اور آپ علیہ السلام کی بیوی صاحبہ کو جنہیں بڑھاپے تک کوئی اولاد نہ ہوئی تھی اولاد کے قابل بنا دیا ۔ بعض لوگ کہتے ہیں ان کی طول زبانیں بند کردی ۔ بعض کہتے ہیں کہ ان کے اخلاق کی کمی پوری کردی ۔ لیکن الفاظ قرآن کے قریب پہلا معنی ہی ہے ۔ یہ سب بزرگ نیکیوں کی طرف اللہ کی فرمانبرداری کی طرف بھاگ دوڑ کرنے والے تھے ۔ اور لالچ اور ڈر سے اللہ سے دعائیں کرنے والے تھے اور سچے مومن رب کی باتیں ماننے والے اللہ کا خوف رکھنے والے تواضع انکساری اور عاجزی کرنے والے اللہ کے سامنے اپنی فروتنی ظاہر کرنے والے تھے ۔ مروی ہے کہ سیدنا صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنے ایک خطبے میں فرمایا ” میں تمہیں اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہنے کی اور اس کی پوری ثناء و صفت بیان کرتے رہنے کی اور لالچ اور خوف سے دعائیں مانگنے کی اور دعاؤں میں خشوع وخضوع کرنے کی وصیت کرتا ہوں دیکھو اللہ عزوجل نے زکریا علیہ السلام کے گھرانے کی یہی فضیلت بیان فرمائی ہے “ پھر آپ رضی اللہ عنہ نے یہ آیت تلاوت فرمائی ۔