وَلَمَّا بَرَزُوا لِجَالُوتَ وَجُنُودِهِ قَالُوا رَبَّنَا أَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا وَثَبِّتْ أَقْدَامَنَا وَانصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ
اور جب جالوت اور اس کی فوج سے ان کا سامنا ہوا، تو انہوں نے کہا کہ اے ہمارے رب، ہمیں صبر عطا فرما، اور ثابت قدمی دے، اور قوم کفار کے خلاف ہماری نصرت فرما
جالوت مارا گیا یعنی جس وقت مسلمانوں کی اس مختصر جماعت نے کفار کے ٹڈی دل لشکر دیکھے تو جناب باری میں گڑگڑا کر دعائیں کرنی شروع کیں کہ اے اللہ ہمیں صبر و ثبات کا پہاڑ بنا دے ۔ لڑائی کے وقت ہمارے قدم جما دے ، منہ موڑنے اور بھاگنے سے ہمیں بچا لے اور ان دشمنوں پر ہمیں غالب کر ، چنانچہ ان کی عاجزانہ اور مخلصانہ دعائیں قبول ہوتی ہیں ، اللہ کی مدد نازل ہوتی ہے اور یہ مٹھی بھر جماعت اس ٹڈی دل لشکر کو تہس نہس کر دیتی ہے اور حضرت داؤد علیہ السلام کے ہاتھوں مخالفین کا سردار اور سرتاج جالوت مارا جاتا ہے ، اسرائیلی روایتوں میں یہ بھی مروی ہے کہ طالوت نے ان سے وعدہ کیا تھا کہ اگر تم جالوت کو قتل کرو گے تو میں اپنی بیٹی تمہارے نکاح میں دوں گا اور اپنا آدھا مال بھی تمہیں دے دوں گا اور حکومت میں بھی برابر شریک کر لوں گا ، چنانچہ داؤد علیہ السلام نے پتھر کو فلاخن میں رکھ کر جالوت پر چلایا اور اسی سے وہ مارا گیا ، جالوت نے اپنا وعدہ پورا کیا ، بالآخر سلطنت کے مستقل سلطان آپ علیہ السلام ہی ہو گئے اور پروردگار عالم کی طرف سے بھی نبوت جیسی زبردست نعمت عطا ہوئی اور شموئیل علیہ السلام کے بعد یہ پیغمبر بھی بنے اور بادشاہ بھی ، حکمت سے مراد نبوت ہے اور بہت سے مخصوص علم بھی جو اللہ عزوجل نے چاہے اپنے اس نبی علیہ السلام کو سکھائے ۔ پھر ارشاد باری تعالیٰ ہوتا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ یوں پست لوگوں کی پستی نہ بدلتا جس طرح بنی اسرائیل کو طالوت جیسے مدبر بادشاہ اور حضرت داؤد علیہ السلام جیسے دلیر سپہ سالار عطا فرما کر حکومت تبدیل نہ کرتا تو لوگ ہلاک ہو جاتے جیسے اور جگہ ہے آیت «وَلَوْلَا دَفْعُ اللہِ النَّاسَ بَعْضَہُم بِبَعْضٍ لَّہُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِیَعٌ وَصَلَوَاتٌ وَمَسَاجِدُ یُذْکَرُ فِیہَا اسْمُ اللہِ کَثِیرًا» ( 22-الحج : 40 ) ور اگر اللہ لوگوں کو ایک دوسرے سے نہ ہٹاتا رہتا تو (راہبوں کے) صومعے اور (عیسائیوں کے) گرجے اور (یہودیوں کے) عبادت خانے اور (مسلمانوں کی) مسجدیں جن میں اللہ کا بہت سا ذکر کیا جاتا ہے ویران ہوچکی ہوتیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ایک نیک بخت ایماندار کی وجہ سے اس کے آس پاس کے سو سو گھرانوں سے اللہ تعالیٰ بلاؤں کو دور کر دیتا ہے ۔ پھر راوی حدیث سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے اسی آیت کی تلاوت کی ( ابن جریر ) لیکن اس حدیث کی سند ضعیف ہے ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری5755 باطل) ۔ ابن جریر کی ایک اور غریب حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ ایک سچے مسلمان کی صلاحیت کی وجہ سے اس کی اولاد کی اولاد کو اس کے گھر والوں کو اور سنوار دیتا ہے اور اس کی موجودگی تک وہ سب اللہ کی حفاظت میں رہتے ہیں ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:5756 باطل) ، ابن مردویہ کی ایک اور حدیث میں ہے کہ قیامت تک ہر زمانہ میں ساٹھ شخص تم میں ضرور ایسے رہیں گے جن کی وجہ سے تمہاری مدد کی جائے گی اور تم پر بارش برسائی جائے گی اور تمہیں روزی دی جائے گی(الدرالمنشور:1 /569-568 ضعیف ) ۔ ابن مردویہ کی دوسری حدیث میں ہے میری امت میں تیس ابدال ہوں گے جن کی وجہ سے تم روزیاں دئیے جاؤ گے ، تم پر بارش برسائی جائے گی اور تمہاری مدد کی جائے گی ۔ (مسند احمد:322/5 منکر) ۔ اس حدیث کے راوی قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میرا خیال ہے حسن بھی انہیں ابدال میں سے تھے ۔ پھر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی یہ نعمت اور اس کا احسان ہے کہ وہ ایک کو دوسرے سے دفع کرتا ہے ، وہی سچا حاکم ہے ، اس کے تمام کام الحکمت سے پر ہوتے ہیں ، وہ اپنی دلیلیں اپنے بندوں پر واضح فرما رہا ہے ۔ وہ تمام مخلوق پر فضل و کرم کرتا ہے ۔ یہ واقعات اور یہ تمام حق کی باتیں اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہماری سچی وحی سے تمہیں معلوم ہوئیں ۔ تم میرے سچے رسول ہو ۔ میری ان باتوں کی اورخود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی سچائی کا علم ان لوگوں کو بھی ہے جن کے ہاتھوں میں کتاب ہے ۔ «تِلْکَ آیَاتُ اللہِ نَتْلُوہَا عَلَیْکَ بِالْحَقِّ وَإِنَّکَ لَمِنَ الْمُرْسَلِینَ» ( البقرہ : 252 ) یہاں اللہ تعالیٰ نے زوردار پرتاکید الفاظ میں قسم کھا کر اپنے نبی کی نبوت کی تصدیق کی ۔ «فالْحَمْدُ لِلّٰہ» ۔ الحمدللہ تفسیر محمدی کا دوسرا پارہ یہاں ختم ہوا ۔