وَتَاللَّهِ لَأَكِيدَنَّ أَصْنَامَكُم بَعْدَ أَن تُوَلُّوا مُدْبِرِينَ
اور اللہ کی قسم ! جب تم لوگ پیٹھ پھیر کر چلے جاؤ گے تو میں تمہارے بتوں کے خلاف کارروائی کروں گا۔
کفر سے بیزاری طبیعت میں اضمحلال پیدا کرتی ہے اوپر ذکر گزرا کہ خلیل اللہ علیہ السلام نے اپنی قوم کو بت پرستی سے روکا ، اور جذبہ توحید میں آکر آپ علیہ السلام نے قسم کھا لی کہ میں تمہارے ان بتوں کا ضرور کچھ نہ کچھ علاج کرونگا ۔ اسے بھی قوم کے بعض افراد نے سن لیا ۔ ان کی عید کا دن جو مقرر تھا ، خلیل اللہ علیہ السلام نے فرمایا کہ ” جب تم اپنی رسوم عید ادا کرنے کے لیے باہر جاؤ گے ، میں تمہارے بتوں کو ٹھیک کر دوں گا “ ۔ عید کے ایک آدھ دن پیشتر آپ علیہ السلام کے والد نے آپ علیہ السلام سے کہا کہ پیارے بیٹے تم ہمارے ساتھ ہماری عید میں چلو تاکہ تمہیں ہمارے دین کی اچھائی اور رونق معلوم ہو جائے ۔ چنانچہ یہ آپ علیہ السلام کو لے چلا ، کچھ دور جانے کے بعد ابراہیم علیہ الصلوۃ والتسلیم گر پڑے اور فرمانے لگے ، ابا میں بیمار ہو گیا ۔ باپ آپ علیہ السلام کو چھوڑ کرمراسم کفر بجا لانے کے لیے آگے بڑھ گئے اور جو لوگ راستے سے گزرتے ، آپ علیہ السلام سے پوچھتے ، کیا بات ہے راستے پر کیسے بیٹھے ہو ؟ جواب دیتے کہ میں بیمار ہوں ۔ جب عام لوگ نکل گئے اور بڈھے بڑے لوگ رہ گئے تو آپ علیہ السلام نے فرمایا ، ” تم سب کے چلے جانے کے بعد آج میں تمہارے معبودوں کی مرمت کر دوں گا “ ۔ آپ علیہ السلام نے جو فرمایا کہ میں بیمار ہوں تو واقعی آپ علیہ السلام اس دن کے اگلے دن قدرے علیل بھی تھے ۔ جب کہ وہ لوگ چلے گئے تو میدان خالی پا کر آپ علیہ السلام نے اپنا ارادہ پورا کیا اور بڑے بت کو چھوڑ کر تمام بتوں کا چورا کر دیا ۔ جیسے اور آیتوں میں اس کا تفصیلی بیان موجود ہے کہ «فَرَاغَ عَلَیْہِمْ ضَرْبًا بِالْیَمِینِ» ۱؎ (37-الصفات:93) ’ اپنے ہاتھ سے ان بتوں کے ٹکڑے ٹکڑے کر دئیے ‘ ۔ اس بڑے بت کے باقی رکھنے میں حکمت ومصلحت یہ تھی کہ اولاً ان لوگوں کے ذہن میں خیال آئے کہ شاید اس بڑے بت نے ان چھوٹے بتوں کو غارت کر دیا ہوگا ؟ کیونکہ اسے غیرت معلوم ہوئی ہوگی کہ مجھ بڑے کے ہوتے ہوئے یہ چھوٹے خدائی کے لائق کیسے ہوگئے ؟ چنانچہ اس خیال کی پختگی ان کے ذہنوں میں قائم کرنے کے لیے آپ علیہ السلام نے کلہاڑا بھی اس کی گردن پر رکھ دیا تھا ، جیسے کہ مروی ہے ۔ جب یہ مشرکین اپنے میلے سے واپس آئے تو دیکھا کہ ان کے سارے معبود منہ کے بل اوندھے گرے ہوئے ہیں ، اور اپنی حالت سے وہ بتا رہے ہیں کہ وہ محض بے جان ، بے نفع و نقصان ، ذلیل و حقیر چیز ہیں ۔ اور گویا اپنی اس حالت سے اپنے پجاریوں کی بے وقوفی پر وہ مہر لگا رہے تھے ۔ لیکن ان بے وقوفوں پر الٹا اثر ہوا کہنے لگے ، یہ کون ظالم شخص تھا جس نے ہمارے معبودوں کی ایسی اہانت کی ؟ اس وقت جن لوگوں نے ابراہیم علیہ السلام کا وہ کلام سنا تھا ، انہیں خیال آ گیا اور کہنے لگے ، وہ نوجوان جس کا نام ابراہیم [ علیہ السلام ] ہے اسے ہم نے اپنے معبودوں کی مذمت کرتے ہوئے سنا ہے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما اس آیت کو پڑھتے اور فرماتے ، جو نبی آیا جوان ۔ جو عالم بنا جوان ۔ ۱؎ (ضعیف) شان الٰہی دیکھئیے جو مقصد خلیل اللہ علیہ صلوات اللہ کا تھا ، وہ اب پورا ہو رہا ہے ۔