سورة الأنبياء - آیت 16

وَمَا خَلَقْنَا السَّمَاءَ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا لَاعِبِينَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی

اور ہم نے آسمان و زمین اور ان کے درمیان کی چیزوں کو کھیل تماشہ کے طور پر نہیں پیدا (١٠) کیا ہے۔

ابن کثیر - حافظ عماد الدین ابوالفداء ابن کثیر صاحب

آسمان و زمین کوئی کھیل تماشہ نہیں «وَلِلہِ مَا فِی السَّمَاوَاتِ وَمَا فِی الْأَرْ‌ضِ لِیَجْزِیَ الَّذِینَ أَسَاءُوا بِمَا عَمِلُوا وَیَجْزِیَ الَّذِینَ أَحْسَنُوا بِالْحُسْنَی» ۱؎ (53-النجم:31) ’ آسمان و زمین کو اللہ تعالیٰ نے عدل سے پیدا کیا ہے تاکہ بروں کو سزا اور نیکوں کو جزا دے ‘ ۔ اس نے انہیں بے کار اور کھیل تماشے کے طور پر پیدا نہیں کیا ۔ اور آیت میں اس مضمون کے ساتھ ہی بیان ہے کہ «وَمَا خَلَقْنَا السَّمَاءَ وَالْأَرْضَ وَمَا بَیْنَہُمَا بَاطِلًا ذَلِکَ ظَنٰ الَّذِینَ کَفَرُوا فَوَیْلٌ لِلَّذِینَ کَفَرُوا مِنَ النَّارِ» ۱؎ (38-ص:27) ’ یہ گمان تو کفار کا ہے جن کے لیے جہنم کی آگ تیار ہے ‘ ۔ دوسری آیت ۱؎ (21-الأنبیاء:17) کے ایک معنی تو یہ ہیں کہ ’ اگر ہم کھیل تماشا ہی چاہتے تو اسے بنا لیتے ‘ ۔ ایک معنی یہ ہیں کہ ’ اگر ہم عورت کرنا چاہتے ‘ ۔ «اللَّہْوُ» کے معنی اہل یمن کے نزدیک بیوی کے بھی آتے ہیں ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:420/18:) یعنی یہ دونوں معنی ہیں ، ’ ہم اگر بیوی بنانا چاہتے تو حورعین میں سے جو ہمارے پاس ہے ، کسی کو بنا لیتے ‘ ۔ ایک معنی یہ بھی ہیں کہ ’ اگر ہم اولاد چاہتے ‘ ۔ لیکن یہ دونوں معنی آپس میں لازم و ملزوم ہیں ۔ بیوی کے ساتھ ہی اولاد ہے ۔ جیسے فرمان ہے آیت «لَوْ اَرَاد اللّٰہُ اَنْ یَّتَّخِذَ وَلَدًا لَّاصْطَفٰی مِمَّا یَخْلُقُ مَا یَشَاءُ سُبْحٰنَہٗ ہُوَ اللّٰہُ الْوَاحِدُ الْقَہَّارُ» ۱؎ (39-الزمر:4) ، یعنی ’ اگر اللہ کو یہی منظور ہوتا کہ اس کی اولاد ہو تو اپنی مخلوق میں سے کسی اعلیٰ درجے کی مخلوق کو یہ منصب عطا فرماتا لیکن وہ اس بات سے پاک اور بہت دور ہے ‘ ۔ اس کی توحید اور غلبہ کے خلاف ہے کہ اس کی اولاد ہو ۔ پس وہ مطلق اولاد سے پاک ہے نہ عیسیٰ اس کا بیٹا ہے نہ عزیر علیہم السلام ۔ نہ فرشتے اس کی لڑکیاں ہیں ۔ «سُبْحَانَہُ وَتَعَالَیٰ عَمَّا یَقُولُونَ عُلُوًّا کَبِیرًا» ۱؎ (17-الاسراء:43) ان عیسائیوں ، یہودیوں اور کفار مکہ کی ان لغویات اور تہمت سے اللہ واحد قہار پاک ہے اور بلند ہے ۔ آیت «إِن کُنَّا فَاعِلِینَ» میں «إِن» کو نافیہ کہا گیا ہے یعنی ’ ہم یہ کرنے والے ہی نہ تھے ‘ ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:421/18:) بلکہ مجاہد رحمتہ اللہ علیہ کا قول ہے کہ ” قرآن مجید میں ہر جگہ ان نفی کے لیے ہی ہے “ ۔ ۱؎ (الدر المنشور للسیوطی:620/5:) فرشتوں کا تذکرہ ’ ہم حق کو واضح کرتے ہیں ، اسے کھول کر بیان کرتے ہیں جس سے باطل دب جاتا ہے ، ٹوٹ کر چورا ہو جاتا ہے اور فوراً ہٹ جاتا ہے ۔ وہ ہے بھی اسی لائق ، وہ ٹھہر نہیں سکتا نہ جم سکتا ہے نہ دیر تک قائم رہ سکتا ہے ۔ اللہ کے لیے جو لوگ اولادیں ٹھہرا رہے ہیں ، ان کے اس واہی قول کی وجہ سے ان کے لیے ویل ہے انہیں پوری خرابی ہے ‘ ۔ پھر ارشاد فرماتا ہے کہ ’ جن فرشتوں کو تم اللہ کی لڑکیاں کہتے ہو ، ان کا حال سنو اور اللہ کی الوہیت کی عظمت دیکھو ۔ آسمان و زمین کی ہرچیز اسی کی ملکیت میں ہے ۔ فرشتے اس کی عبادت میں مشغول ہیں ۔ ناممکن ہے کہ کسی وقت سرکشی کریں ‘ ۔ «لَّن یَسْتَنکِفَ الْمَسِیحُ أَن یَکُونَ عَبْدًا لِّلَّـہِ وَلَا الْمَلَائِکَۃُ الْمُقَرَّبُونَ وَمَن یَسْتَنکِفْ عَنْ عِبَادَتِہِ وَیَسْتَکْبِرْ فَسَیَحْشُرُہُمْ إِلَیْہِ جَمِیعًا» ۱؎ (4-النساء:172) ’ نہ مسیح کو بندہ رب ہونے سے شرم ، نہ فرشتوں کو اللہ کی عبادت سے عار ، نہ ان میں سے کوئی تکبر کرے یا عبادت سے جی چرائے اور جو کوئی ایسا کرے تو ایک وقت آ رہا ہے کہ وہ اللہ کے سامنے میدان محشر میں سب کے ساتھ ہو گا اور اپنا کیا بھرے گا ‘ ۔ یہ بزرگ فرشتے اس کی عبادت سے تھکتے بھی نہیں ، گھبراتے بھی نہیں ، سستی اور کاہلی ان کے پاس بھی نہیں پھٹکتی ۔ دن رات اللہ کی فرماں برداری میں ، اس کی عبادت میں ، اس کی تسبیح و اطاعت میں لگے ہوئے ہیں ۔ نیت اور عمل دونوں موجود ہیں ۔ «لَّا یَعْصُونَ اللہَ مَا أَمَرَہُمْ وَیَفْعَلُونَ مَا یُؤْمَرُونَ» ۱؎ (66-التحریم:6) ’ اللہ کی کوئی نافرمانی نہیں کرتے نہ کسی فرمان کی تعمیل سے رکتے ہیں ‘ ۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ { ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ رضی اللہ عنہم کے مجمع میں تھے کہ فرمایا : { لوگو ! جو میں سنتا ہوں کیا تم بھی سنتے ہو ؟ } سب نے جواب دیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم تو کچھ بھی نہیں سن رہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { میں آسمانوں کی چرچراہٹ سن رہا ہوں اور حق تو یہ ہے کہ اسے چرچرانا ہی چاہیئے ، اس لیے کہ اس میں ایک بالشت بھر جگہ ایسی نہیں جہاں کسی نہ کسی فرشتے کا سر سجدے میں نہ ہو } } ۔ ۱؎ (سلسلۃ احادیث صحیحہ البانی:1060،) عبداللہ بن حارث بن نوفل فرماتے ہیں ، میں کعب احبار رحمتہ اللہ علیہ کے پاس بیٹھا ہوا تھا ، اس وقت میں چھوٹی عمر کا تھا ، میں نے ان سے اس آیت کا مطلب پوچھا کہ بولنا چالنا ، اللہ کا پیغام لے کر جانا ، عمل کرنا یہ بھی انہیں تسبیح سے نہیں روکتا ؟ میرے اس سوال پر چوکنے ہوکر آپ رحمہ اللہ نے فرمایا ، یہ بچہ کون ہے ؟ لوگوں نے کہا بنو عبدالمطلب میں سے ہے ۔ آپ رحمہ اللہ نے میری پیشانی چوم لی اور فرمایا ، ” پیارے بچے تسبیح ان فرشتوں کے لیے ایسی ہی ہے جیسے ہمارے لیے سانس لینا ۔ دیکھو چلتے پھرتے ، بولتے چالتے تمہارا سانس برابر آتا جاتا رہتا ہے ۔ اسی طرح فرشتوں کی تسبیح ہر وقت جاری رہتی ہے “ ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:12/17:)