قَالَ رَبِّي يَعْلَمُ الْقَوْلَ فِي السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ ۖ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ
رسول اللہ نے کہا، میرا رب آسمان اور زمین میں ہونے والی بات کو جانتا ہے (٤) اور وہ بڑا سننے والا، بڑا جاننے والا ہے۔
. ان بدکرداروں کے جواب میں جناب باری ارشاد فرماتا ہے کہ ’ یہ جو بہتان باندھتے ہیں ان سے کہئے کہ جو اللہ آسمان و زمین کی تمام باتیں جانتا ہے جس پر کوئی بات پوشیدہ نہیں ، اس نے اس پاک کلام قرآن کریم کو نازل فرمایا ۔ اس میں اگلی پچھلی تمام خبروں کا موجود ہونا ہی دلیل ہے اس بات کی کہ اس کا اتارنے والا عالم الغیب ہے ۔ وہ تمہاری سب باتوں کا سننے والا اور تمہارے تمام حالات کا علم رکھنے والا ہے ۔ پس تمہیں اس کا ڈر رکھنا چاہیئے ‘ ۔ پھر کفار کی ضد ، ناسمجھی اور کٹ حجتی بیان فرما رہا ہے جس سے صاف ظاہر ہے کہ وہ خود حیران ہیں ۔ کسی بات پر جم نہیں سکتے ۔ کبھی کلام اللہ کو جادو کہتے ہیں تو کبھی شاعری کہتے ہیں ۔ کبھی پراگندہ اور بے معنی باتیں کہتے ہیں اور کبھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ازخود گھڑلیا ہوا بتاتے ہیں ۔ اور آیت میں ہے «انظُرْ کَیْفَ ضَرَبُوا لَکَ الْأَمْثَالَ فَضَلٰوا فَلَا یَسْتَطِیعُونَ سَبِیلًا» ۱؎ (17-الإسراء:48 و 25-الفرقان:9) ’ دیکھیں تو سہی ، آپ کے لیے کیا کیا مثالیں بیان کرتے ہیں ، پس وہ بہک رہے ہیں ۔ اب تو راہ پانا ان کے بس میں نہیں رہا ‘ ۔ خیال کرو کہ اپنے کسی قول پر بھروسہ نہ رکھنے والا ، جو زبان پر چڑھے بک دینے و الا بھی مستقل مزاج کہلانے کامستحق ہے ؟ کبھی کہتے تھے ، اچھا اگر یہ سچا نبی ہے تو صالح علیہ السلام کی طرح کوئی اونٹنی لے آتا یا موسیٰ علیہ السلام کی طرح کا کوئی معجزہ دکھاتا یا عیسیٰ علیہ السلام کا کوئی معجزہ ظاہر کرتا ۔ «وَمَا مَنَعَنَا أَن نٰرْسِلَ بِالْآیَاتِ إِلَّا أَن کَذَّبَ بِہَا الْأَوَّلُونَ وَآتَیْنَا ثَمُودَ النَّاقَۃَ مُبْصِرَۃً فَظَلَمُوا بِہَا» (17-الاسراء:59) ’ بیشک اللہ ان چیزوں پر قادر تو ضرور ہے لیکن اگر ظاہر ہوئیں اور پھر بھی یہ اپنے کفر سے نہ ہٹے تو عادت الٰہی کے تحت عذاب الٰہی میں پکڑ لیے جائیں گے اور پیس دئیے جائیں گے ۔ عموماً اگلے لوگوں نے یہی کہا اور ایمان نصیب نہ ہوا اور غارت کر دئیے گئے ۔ اسی طرح یہ بھی ایسے معجزے طلب کر رہے ہیں ۔ اگر ظاہر ہوئے تو ایمان نہ لائیں گے اور تباہ ہوجائینگے ‘ ۔ جیسے فرمان ہے آیت «اِنَّ الَّذِیْنَ حَقَّتْ عَلَیْہِمْ کَلِمَتُ رَبِّکَ لَا یُؤْمِنُوْنَ وَلَوْ جَاءَتْہُمْ کُلٰ آیَۃٍ حَتَّیٰ یَرَوُا الْعَذَابَ الْأَلِیمَ» ۱؎ (10-یونس:97-96) ’ جن پر تیرے رب کی بات ثابت ہو چکی ہے وہ گو تمام تر معجزے دیکھ لیں ، ایمان قبول نہ کریں گے ۔ ہاں عذاب الیم کے معائنہ کے بعد تو فوراً تسلیم کر لیں گے لیکن وہ محض بے سود ہے ‘ ۔ بات بھی یہی ہے کہ انہیں ایمان لانا ہی نہ تھا ورنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بےشمار معجزات روز مرہ ان کی نگاہوں کے سامنے تھے ۔ بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ معجزے دیگر انبیاء علیہم السلام سے بہت زیادہ ظاہر اور کھلے ہوئے تھے ۔ ابن ابی حاتم کی ایک بہت ہی غریب روایت میں ہے کہ { صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا ایک مجمع مسجد میں تھا ۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ تلاوت قرآن کر رہے تھے ۔ اتنے میں عبداللہ بن سلول منافق آیا ۔ اپنی گدی بچھا کر اپنا تکیہ لگا کر وجاہت سے بیٹھ گیا ۔ تھا بھی گورا چٹا ، بڑھ بڑھ کر فصاحت کے ساتھ باتیں بنانے والا ، کہنے لگا ابوبکر [ رضی اللہ عنہ ] تم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہو کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوئی نشان ہمیں دکھائیں جیسے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے کے انبیاء نشانات لائے تھے مثلا موسیٰ علیہ السلام تختیاں لائے ، داؤد علیہ السلام زبور لائے ، صالح علیہ السلام اونٹنی لائے ، عیسیٰ علیہ السلام انجیل لائے اور آسمانی دستر خوان ۔ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہا یہ سن کر رونے لگے ۔ اتنے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم گھر سے نکلے تو آپ رضی اللہ عنہ نے دوسرے صحابہ رضی اللہ عنہم سے فرمایا کہ ” نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم کے لیے کھڑے ہو جاؤ ، اور اس منافق کی فریاد دربار رسالت میں پہنچاؤ “ ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : { سنو میرے لیے کھڑے نہ ہوا کرو ۔ صرف اللہ ہی کے لیے کھڑے ہوا کرو } ۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہا ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں اس منافق سے بڑی ایذاء پہنچی ہے ۔ { آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { ابھی ابھی جبرائیل علیہ السلام میرے پاس آئے تھے اور مجھ سے فرمایا کہ باہر جاؤ اور لوگوں کے سامنے اپنے ان فضائل کو ظاہر کرو اور ان نعمتوں کا بیان کرو جو اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا فرمائی ہیں ۔ میں ساری دنیا کی طرف رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں ، مجھے حکم ہوا ہے کہ میں جنات کو بھی پیغام الٰہی پہنچا دوں ۔ مجھے میرے رب نے اپنی پاک کتاب عنایت فرمائی ہے حالانکہ محض بے پڑھا ہوں ۔ میرے تمام اگلے پچھلے گناہ معاف فرما دئیے ہیں ۔ میرا نام اذان میں رکھا ہے ۔ میری مدد فرشتوں سے کرائی ہے ۔ مجھے اپنی امداد و نصرت عطا فرمائی ہے ۔ رعب میرا میرے آگے آگے کر دیا ہے ۔ مجھے حوض کوثر عطا فرمایا ہے جو قیامت کے دن تمام اور حوضوں سے بڑا ہوگا ۔ مجھے اللہ تعالیٰ نے مقام محمود کا وعدہ دیا ہے ۔ اس وقت جب کہ سب لوگ حیران و پریشان سر جھکائے ہوئے ہوں گے ، مجھے اللہ نے اس پہلے گروہ میں چنا ہے جو لوگوں سے نکلے گا ۔ میری شفاعت سے میری امت کے ستر ہزار شخص بغیر حساب کتاب کے جنت میں جائیں گے ۔ مجھے غلبہ اور سلطنت عطا فرمائی ہے ۔ مجھے جنت نعیم کا وہ بلند و بالا اعلیٰ بالاخانہ ملے گا کہ اس سے اعلیٰ منزل کسی کی نہ ہوگی ۔ میرے اوپر صرف وہ فرشتے ہوں گے جو اللہ تعالیٰ کے عرش کو اٹھائے ہوئے ہوں گے ۔ میرے اور میری امت کے لیے غنیمتوں کے مال حلال کئے گئے حالانکہ مجھ سے پہلے وہ کسی کے لیے حلال نہ تھے } ۔ ۱؎ (ابن ابی حاتم:ضعیف)