قَالَ اهْبِطَا مِنْهَا جَمِيعًا ۖ بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ ۖ فَإِمَّا يَأْتِيَنَّكُم مِّنِّي هُدًى فَمَنِ اتَّبَعَ هُدَايَ فَلَا يَضِلُّ وَلَا يَشْقَىٰ
اللہ نے کہا تم دونوں جنت سے نیچے (٥٤) (زمین پر) چلے جاؤ، تم میں سے بعض بعض کے دشمن ہوں گے، پس اگر تمہارے پاس میری طرف سے ہدایت آئے، تو جو شخص میری ہدایت کی اتباع کرے گا وہ دنیا میں گمراہ نہیں ہوگا، اور نہ آخرت میں تکلیف اٹھائے گا۔
ایک دوسرے کے دشمن آدم علیہ السلام و حواء علیہا السلام اور ابلیس لعین سے اسی وقت فرما دیا گیا کہ تم سب جنت سے نکل جاؤ ۔ سورۃ البقرہ میں اس کی پوری تفسیر گزر چکی ہے ۔ تم آپس میں ایک دوسرے کے دشمن ہو یعنی اولاد آدم اور اولاد ابلیس ۔ تمہارے پاس میرے رسول اور میری کتابیں آئیں گی ۔ میری بتائی ہوئی راہ کی پیروی کرنے والے نہ تو دنیا میں رسوا ہوں گے نہ آخرت میں ذلیل ہوں گے ۔ ہاں حکموں کے مخالف ، میرے رسول کی راہ کے تارک ، دوسری راہوں پہ چلنے والے دنیا میں بھی تنگ رہیں گے ، اطمینان اور کشادہ دلی میسر نہ ہو گی ۔ اپنی گمراہی کی وجہ سے تنگیوں میں ہی رہیں گے گو بظاہر کھانے پینے پہننے اوڑھنے رہنے سہنے کی فراخی ہو لیکن دل میں یقین و ہدایت نہ ہونے کی وجہ سے ہمیشہ شک و شبہے اور تنگی اور قلت میں مبتلا رہیں گے ۔ بدنصیب ، رحمت الٰہی سے محروم ، خیر سے خالی ۔ کیونکہ اللہ پر ایمان نہیں ، اس کے وعدوں کا یقین نہیں ، مرنے کے بعد کی نعمتوں میں کوئی حصہ نہیں ۔ اللہ کے ساتھ بدگمان ہیں ، گئی ہوئی چیز کو آنے والی نہیں سمجھتے ۔ خبیث روزیاں ہیں ، گندے عمل ہیں ، قبر تنگ و تاریک ہے ۔ وہاں اس طرح دبوچا جائے گا کہ دائیں پسلیاں بائیں میں اور بائیں طرف کی دائیں طرف میں گھس جائیں گی ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ، { مومن کی قبر ہرا بھرا سرسبز باغیچہ ہے ، ستر [ 70 ] ہاتھ کی کشادہ ہے ، ایسا معلوم ہوتا ہے گویا چاند اس میں ہے ، خوب نور اور روشنی پھیل رہی ہے جیسے چودھویں رات کا چاند چڑھا ہوا ہو ۔ اس آیت کا شان نزول معلوم ہے کہ میرے ذکر سے منہ پھیرنے والوں کی معیشت تنگ ہے ۔ اس سے مراد کافر کی قبر میں اس پر عذاب ہے ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:227/16:ضعیف) اللہ کی قسم اس پر ننانوے اژدھے مقرر کئے جاتے ہیں ہر ایک کے سات سات سر ہوتے ہیں جو اسے قیامت تک ڈستے رہتے ہیں ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:24426:ضعیف) اس حدیث کا مرفوع ہونا بالکل منکر ہے ۔ } ایک عمدہ سند سے بھی مروی ہے کہ { اس سے مراد عذاب قبر ہے ۔} ۱؎ (مستدرک حاکم:381/2:حسن) یہ قیامت کے دن اندھا بنا کر اٹھایا جائے گا سوائے جہنم کے کوئی چیز اسے نظر نہ آئے گی ۔ نابینا ہو گا اور میدان حشر کی طرف چلایا جائے گا اور جہنم کے سامنے کھڑا کر دیا جائے گا ۔ جیسے فرمان ہے « وَنَحْشُرُہُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ عَلٰی وُجُوْہِہِمْ عُمْیًا وَّبُکْمًا وَّصُمًّا ۭ مَاْوٰیہُمْ جَہَنَّمُ ۭ کُلَّمَا خَبَتْ زِدْنٰہُمْ سَعِیْرًا»۱؎ (17-الإسراء:97) ۔ ’ یعنی ہم انہیں قیامت کے دن اوندھے منہ اندھے گونگے بہرے بنا کر حشر میں لے جائیں گے ان کا اصلی ٹھکانہ دوزخ ہے ۔ ‘ یہ کہیں گے کہ میں تو دنیا میں آنکھوں والا خوب دیکھتا بھالتا تھا ، پھر مجھے اندھا کیوں کر دیا گیا ؟ جواب ملے گا کہ یہ بدلہ ہے اللہ کی آیتوں سے منہ موڑ لینے کا اور ایسا ہو جانے کا گویا خبر ہی نہیں ۔ پس آج ہم بھی تیرے ساتھ ایسا معاملہ کریں گے کہ جیسے تو ہماری یاد سے اتر گیا ۔ جیسے فرمان ہے «فَالْیَوْمَ نَنْسٰیہُمْ کَمَا نَسُوْا لِقَاۗءَ یَوْمِہِمْ ھٰذَا ۙ وَمَا کَانُوْا بِاٰیٰتِنَا یَجْحَدُوْنَ» ۱؎ (7-الأعراف:51) ۔ ’ آج ہم انہیں ٹھیک اسی طرح بھلا دیں گے جیسے انہوں نے آج کے دن کی ملاقات کو بھلا دیا تھا ۔ ‘ پس یہ برابر کا اور عمل کی طرح کا بدلہ ہے ۔ قرآن پر ایمان رکھتے ہوئے اس کے احکام کا عامل ہوتے ہوئے کسی شخص سے اگر اس کے الفاظ حفظ سے نکل جائیں تو وہ اس وعید میں داخل نہیں ۔ اس کے لیے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ وہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ سے جذامی ہونے کی حالت میں ملاقات کرے گا ۔} ۱؎ (سنن ابوداود:1474:ضعیف)