سورة طه - آیت 80

يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ قَدْ أَنجَيْنَاكُم مِّنْ عَدُوِّكُمْ وَوَاعَدْنَاكُمْ جَانِبَ الطُّورِ الْأَيْمَنَ وَنَزَّلْنَا عَلَيْكُمُ الْمَنَّ وَالسَّلْوَىٰ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اے بنی اسرائیل ! ہم نے تمہیں تمہارے دشمن (فرعون) سے نجات (٣٠) دی اور تم سے کوہ طور کے داہنے جانب آنے کا وعدہ لیا، اور تمہارے لیے من و سلوی نازل کیا۔

ابن کثیر - حافظ عماد الدین ابوالفداء ابن کثیر صاحب

احسانات کی یاد دہانی اللہ تبارک و تعالیٰ نے بنی اسرائیل پر جو بڑے بڑے احسان کئے تھے ، انہیں یاد دلا رہا ہے ۔ ان میں سے ایک تو یہ ہے کہ انہیں ان کے دشمن سے نجات دی ۔ اور اتنا ہی نہیں بلکہ ان کے دشمنوں کو ان کے دیکھتے ہوئے دریا میں ڈبو دیا ۔ ایک بھی ان میں سے باقی نہ بچا ۔ جیسے فرمان ہے « وَأَغْرَقْنَا آلَ فِرْعَوْنَ وَأَنتُمْ تَنظُرُونَ » (2-البقرۃ:50) ۔ ’ یعنی ہم نے تمہارے دیکھتے ہوئے فرعونیوں کو ڈبو دیا ۔ ‘ صحیح بخاری شریف میں ہے کہ { مدینے کے یہودیوں کو عاشورے کے دن کا روزہ رکھتے ہوئے دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے اس کا سبب دریافت فرمایا تو انہوں نے جواب دیا کہ اسی دن اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کو فرعون پر کامیاب کیا تھا ۔ آپ نے فرمایا ، پھر تو ہمیں بہ نسبت تمہارے ان سے زیادہ قرب ہے چنانچہ آپ نے مسلمانوں کو اس دن کے روزے کا حکم دیا ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:4680) پھر اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کو کوہ طور کی دائیں جانب کا وعدہ دیا ۔ آپ وہاں گئے اور پیچھے سے بنو اسرائیل نے گئوسالہ پرستی شروع کر دی ۔ جس کا بیان ابھی آگے آئے گا ان شاءاللہ تعالیٰ ۔ اسی طرح ایک احسان ان پر یہ کیا کہ من وسلوی کھانے کو دیا ۔ اس کا پورا بیان سورۃ البقرہ وغیرہ کی تفسیر میں گزر چکا ہے ۔ من ایک میٹھی چیز تھی جو ان کے لیے آسمان سے اترتی تھی اور سلوی ایک قسم کے پرند تھے جو بہ حکم خداوندی ان کے سامنے آ جاتے تھے ، یہ بقدر ایک دن کی خوراک کے انہیں لے لیتے تھے ۔ ہماری یہ دی ہوئی روزی کھاؤ ، اس میں حد سے نہ گزر جاؤ ، حرام چیز یا حرام ذریعہ سے اسے نہ طلب کرو ۔ ورنہ میرا غضب نازل ہو گا اور جس پر میرا غضب اترے یقین مانو کہ وہ بدبخت ہو گیا ۔ شغی بن مانع رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جہنم میں ایک اونچی جگہ بنی ہوئی ہے جہاں سے کافر کو جہنم میں گرایا جاتا ہے تو زنجیروں کی جگہ تک چالیس سال میں پہنچتا ہے ۔ یہی مطلب اس آیت کا ہے کہ وہ گڑھے میں گر پڑا ۔ ہاں جو بھی اپنے گناہوں سے میرے سامنے توبہ کرے ، میں اس کی توبہ قبول فرماتا ہوں ۔ دیکھو بنی اسرائیل میں سے جنہوں نے بچھڑے کی پوجا کی تھی ، ان کی توبہ کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان کو بھی بخش دیا ۔ غرض جس کفر و شرک ، گناہ و معصیت پر کوئی ہو ، پھر وہ اسے بخوف الٰہی چھوڑ دے ، اللہ تعالیٰ اسے معاف فرما دیتا ہے ۔ ہاں دل میں ایمان ہو اور اعمال صالحہ بھی کرتا ہو اور ہو بھی راہ راست پر ، شکی نہ ہو ، سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور جماعت صحابہ رضی اللہ عنہم کی روش پر ہو ۔ اس میں ثواب جانتا ہو ، یہاں پر «ثم» کا لفظ خبر کی خبر پر ترتیب کرنے کے لیے آیا ہے ۔ جیسے فرمان ہے « ثُمَّ کَانَ مِنَ الَّذِیْنَ آمَنُوا وَ عَمِلُوا الصّالِحاتِ » ۔ ۱؎ (90-البلد:17)