إِنَّهُ مَن يَأْتِ رَبَّهُ مُجْرِمًا فَإِنَّ لَهُ جَهَنَّمَ لَا يَمُوتُ فِيهَا وَلَا يَحْيَىٰ
بیشک جو شخص (قیامت کے دن) اپنے رب کے سامنے مجرم کی حیثیت (٢٨) سے آئے گا، تو اس کا ٹھکانا جہنم ہوگا، اس میں نہ وہ مرے گا اور نہ زندہ رہے گا۔
ایمان یافتہ جادوگروں پر فرعون کا عتاب بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ جادوگروں نے ایمان قبول فرما کر فرعون کو جو نصیحتیں کیں ، انہیں میں یہ آیتیں بھی ہیں ۔ اسے اللہ کے عذابوں سے ڈرا رہے ہیں اور اللہ کی نعمتوں کا لالچ دلا رہے ہیں کہ گنہگاروں کا ٹھکانا جہنم ہے جہاں موت تو کبھی آنے ہی کی نہیں لیکن زندگی بھی بڑی ہی مشقت والی موت سے بدتر ہو گی ۔ جیسے فرمان ہے «لَا یُقْضٰی عَلَیْہِمْ فَیَمُوْتُوْا وَلَا یُخَـفَّفُ عَنْہُمْ مِّنْ عَذَابِہَا ۭ کَذٰلِکَ نَجْزِیْ کُلَّ کَفُوْرٍ » ۱؎ (35-فاطر:36) ’ یعنی نہ تو موت ہی آئے گی نہ عذاب ہلکے ہوں گے ، کافروں کو ہم اسی طرح سزا دیتے ہیں ۔ ‘ اور آیتوں میں ہے «وَیَتَجَنَّبُہَا الْأَشْقَی * الَّذِی یَصْلَی النَّارَ الْکُبْرَیٰ * ثُمَّ لَا یَمُوتُ فِیہَا وَلَا یَحْیَیٰ » ۱؎ (87-الأعلی:11-13) ’ یعنی اللہ کی نصیحتوں سے بے فیض وہی رہے گا جو ازلی بدبخت ہو جو آخرکار بڑی سخت آگ میں گرے گا جہاں نہ تو موت آئے نہ چین کی زندگی نصیب ہو ۔ ‘ اور آیت میں ہے کہ«وَنَادَوْا یَا مَالِکُ لِیَقْضِ عَلَیْنَا رَبٰکَ ۖ قَالَ إِنَّکُم مَّاکِثُونَ » ۱؎ (43-الزخرف:77) ’ جہنم میں جھلستے ہوئے کہیں گے کہ اے داروغہ دوزخ ! تم دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ ہمیں موت ہی دیدے ‘ لیکن وہ جواب دے گا کہ نہ تم مرنے والے ہو نہ نکلنے والے ۔