وَقَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمَٰنُ وَلَدًا
اور مشرکین کہتے ہیں کہ رحمن نے کسی کو اپنی اولاد (٥٣) بنا رکھا ہے۔
عیسیٰ علیہ السلام کا تعارف اس مبارک سورت کے شروع میں اس بات کا ثبوت گزر چکا کہ عیسیٰ علیہ السلام اللہ کے بندے ہیں ۔ انہیں اللہ تعالیٰ نے باپ کے بغیر اپنے حکم سے مریم صدیقہ کے بطن سے پیدا کیا ہے ۔ اس لیے یہاں ان لوگوں کی نادانی بیان ہو رہی ہے جو آپ علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا قرار دیتے ہیں ۔ جس سے ذات الٰہی پاک ہے ۔ ان کے قول کو بیان فرمایا ، پھر فرمایا یہ بڑی بھاری بات ہے ۔ «اِدّاً» اور «اَدّاً» اور «اٰدّاً» تینوں لغت ہیں لیکن مشہور «اِدّاً» ہے ۔ ان کی یہ بات اتنی بری ہے کہ آسمان کپکپا کر ٹوٹ پڑے اور زمین جھٹکے لے لے کر پھٹ جائے ۔ اس لیے کہ زمین و آسمان اللہ تعالیٰ کی عزت و عظمت جانتے ہیں ، ان میں رب کی توحید سمائی ہوئی ہے ۔ انہیں معلوم ہے کہ ان بدکار بےسمجھ انسانوں نے اللہ کی ذات پر تہمت باندھی ہے ، نہ اس کی جنس کا کوئی ، نہ اس کے ماں باپ ، نہ اولاد ، نہ اس کا کوئی شریک ، نہ اس جیسا کوئی ۔ تمام مخلوق اس کی وحدانیت کی شاہد ہے ۔ کائنات کا ایک ایک ذرہ اس کی توحید پر دلالت کرنے والا ہے ۔ اللہ کے ساتھ شرک کرنے والوں کے شرک سے ساری مخلوق کانپ اٹھتی ہے ۔ قریب ہوتا ہے کہ انتظام کائنات درہم برہم ہو جائے ۔ شرک کے ساتھ کوئی نیکی کار آمد نہیں ہوتی ۔ کیا عجب کہ اس کے برعکس توحید کے ساتھ کے گناہ کل کے کل اللہ تعالیٰ معاف فرما دے ۔ جیسے کہ حدیث میں ہے { { اپنے مرنے والوں کو «لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ» کی شہادت کی تلقین کرو ۔ موت کے وقت جس نے اسے کہہ لیا اس کے لیے جنت واجب ہوگئی } ۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہا ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جس نے زندگی میں کہہ لیا ؟ فرمایا : { اس کے لیے اور زیادہ واجب ہو گئی ۔ قسم اللہ کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ زمین و آسمان اور ان کی اور ان کے درمیان کی اور ان کے نیچے کی تمام چیزیں ترازو کے ایک پلڑے میں رکھ دی جائیں اور «لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ» کی شہادت دوسرے پلڑے میں رکھی جائے تو وہ ان سب سے وزن میں بڑھ جائے } } ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:23953:) اسی کی مزید دلیل وہ حدیث ہے جس میں توحید کے ایک چھوٹے سے پرچے کا گناہوں کے بڑے بڑے دفتروں سے وزنی ہو جانا آیا ہے ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:2639،قال الشیخ الألبانی:صحیح) «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ پس ان کا یہ مقولہ اتنا بد ہے جسے سن کر آسمان بوجہ اللہ کی عظمت کے کانپ اٹھے اور زمین بوجہ غضب کے پھٹ جائے اور پہاڑ پاش پاش ہو جائیں ۔ عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ، ” ایک پہاڑ دوسرے پہاڑ سے دریافت کرتا ہے کہ کیا آج کوئی ایسا شخص بھی تجھ پر چڑھا جس نے اللہ کا ذکر کیا ہو ؟ وہ خوشی سے جواب دیتا ہے کہ ہاں ۔ پس پہاڑ بھی باطل اور جھوٹ بات کو اور بھلی بات کو سنتے ہیں دیگر کلام نہیں کرتے ۔ پھر آپ نے اسی آیت کی تلاوت فرمائی “ ۔ مروی ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے جب زمین کو اور اس کے درختوں کو پیدا کیا تو ہر درخت ابن آدم کو پھل پھول اور نفع دیتا تھا مگر جب زمین پر رہنے والے لوگوں نے اللہ کے لیے اولاد کا لفظ بولا تو زمین ہل گئی اور درختوں میں کانٹے پڑگئے ۔ کعب رحمہ اللہ کہتے ہیں ، ملائکہ غضبناک ہو گئے اور جہنم زور شور سے بھڑک اٹھی ۔ مسند احمد میں { فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ { لوگوں کی ایذاء دہندہ باتوں پر اللہ سے زیادہ صابر کوئی نہیں ۔ لوگ اس کے ساتھ شریک کرتے ہیں ، اس کی اولادیں مقرر کرتے ہیں اور وہ انہیں عافیت دے رہا ہے ، روزیاں پہنچا رہا ہے ، برائیاں ان سے ٹالتا رہتا ہے } } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:6099) پس ان کی اس بات سے کہ اللہ کی اولاد ہے ، زمین و آسمان اور پہاڑ تک تنگ ہیں ۔ اللہ کی عظمت و شان کے لائق نہیں کہ اس کے ہاں اولاد ہو ، اس کے لڑکے لڑکیاں ہوں ۔ اس لیے کہ تمام مخلوق اس کی غلامی میں ہے ، اس کی جوڑ کا یا اس جیسا کوئی اور نہیں ۔ زمین و آسمان میں جو ہیں سب اس کے زیر فرمان اور حاضر باش غلام ہیں ۔ وہ سب کا آقا سب کا پالنہار سب کا خبر لینے والا ہے ۔ سب کی گنتی اس کے پاس ہے سب کو اس کے علم نے گھیر رکھا ہے سب اس کی قدرت کے احاطے میں ہیں ۔ ہر مرد و عورت چھوٹے بڑے کی اسے اطلاع ہے ، شروع پیدائش سے ختم دنیا تک کا اسے علم ہے ۔ اس کا کوئی مددگار نہیں نہ اس کا شریک وساجھی ۔ ہر ایک بے یار و مددگار اس کے سامنے قیامت کے روز پیش ہونے والا ہے ۔ ساری مخلوق کے فیصلے اس کے ہاتھ میں ہیں ۔ وہی «وَحدَہُ لَا شَرِیْکَ لَہُ» ، سب کے حساب کتاب چکائے گا جو چاہے گا کرے گا ۔ عادل ہے ظالم نہیں ، کسی کی حق تلفی اس کی شان سے بعید ہے ۔