قُلْ مَن كَانَ فِي الضَّلَالَةِ فَلْيَمْدُدْ لَهُ الرَّحْمَٰنُ مَدًّا ۚ حَتَّىٰ إِذَا رَأَوْا مَا يُوعَدُونَ إِمَّا الْعَذَابَ وَإِمَّا السَّاعَةَ فَسَيَعْلَمُونَ مَنْ هُوَ شَرٌّ مَّكَانًا وَأَضْعَفُ جُندًا
آپ کہہ دیجیے کہ جو گمراہ (٤٦) ہوجاتا ہے، اسے رحمن خوب ڈھیل دے دیتا ہے، یہاں تک کہ جب وہ اس چیز کو دیکھ لیں گے جس کا ان سے وعدہ کیا جاتا رہا ہے یا دنیاوی عذاب یا قیامت تو انہیں معلوم ہوجائے گا کہ مرتبہ کے اعتبار سے کون زیادہ برا ہے، اور افراد کے اعتبار سے کون زیادہ کمزور ہے۔
مشرکوں سے مباہلہ ’ ان کافروں کو جو تمہیں ناحق پر اور اپنے آپ کو حق پر سمجھ رہے ہیں اور اپنی خوش حالی اور فارغ البالی پر اطمینان کئے بیٹھے ہوئے ہیں ، ان سے کہہ دیجئیے کہ گمراہوں کی رسی دراز ہوتی ہے ، انہیں اللہ کی طرف سے ڈھیل دی جاتی ہے جب تک کہ قیامت نہ آ جائے یا ان کی موت نہ آ جائے ۔ اس وقت انہیں پورا پتہ چل جائے گا کہ فی الواقع برا شخص کون تھا اور کس کے ساتھی کمزور تھے ۔ دنیا تو ڈھلتی چڑھتی چھاؤں ہے نہ خود اس کا اعتبار نہ اس کے سامان اسباب کا ۔ یہ تو اپنی سرکشی میں بڑھتے ہی رہیں گے ‘ ۔ گویا اس آیت میں مشرکوں سے مباہلہ ہے ۔ جیسے یہودیوں سے سورۃ الجمعہ میں مباہلہ کی آیت ہے کہ «قُلْ یَا أَیٰہَا الَّذِینَ ہَادُوا إِن زَعَمْتُمْ أَنَّکُمْ أَوْلِیَاءُ لِلہِ مِن دُونِ النَّاسِ فَتَمَنَّوُا الْمَوْتَ إِن کُنتُمْ صَادِقِینَ» ۱؎ (62-الجمعۃ:6) ’ آؤ ہمارے مقابلہ میں موت کی تمنا کرو ‘ ۔ اسی طرح سورۃ آل عمران میں مباہلے کا ذکر ہے کہ «فَمَنْ حَاجَّکَ فِیہِ مِن بَعْدِ مَا جَاءَکَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَکُمْ وَنِسَاءَنَا وَنِسَاءَکُمْ وَأَنفُسَنَا وَأَنفُسَکُمْ ثُمَّ نَبْتَہِلْ فَنَجْعَل لَّعْنَتَ اللہِ عَلَی الْکَاذِبِینَ» ۱؎ (3-آل عمران:61) ’ جب تم اپنے خلاف دلیلیں سن کر بھی عیسیٰ علیہ السلام کے ابن اللہ ہونے کے مدعی ہو تو آؤ بال بچوں سمیت میدان میں جا کر جھوٹے پر اللہ کی لعنت پڑنے کی دعا کریں ‘ ۔ پس نہ تو مشرکین مقابلے پر آئے ، نہ یہود کی ہمت پڑی ، نہ نصرانی مرد میدان بنے ۔