وَإِذَا تُتْلَىٰ عَلَيْهِمْ آيَاتُنَا بَيِّنَاتٍ قَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لِلَّذِينَ آمَنُوا أَيُّ الْفَرِيقَيْنِ خَيْرٌ مَّقَامًا وَأَحْسَنُ نَدِيًّا
اور جب ان کے سامنے ہماری صریح آیتوں کی تلاوت (٤٥) کی جاتی ہے تو اہل کفر ایمان والوں سے کہتے ہیں کہ ہم دونوں گروہوں میں سے مقام و مرتبہ اور مجلس کے اعتبار سے کون زیادہ اچھا ہے۔
کثرت مال فریب زندگی اللہ کی صاف صریح آیتوں سے پروردگار کے دلیل و برہان والے کلام سے کفار کو کوئی فائدہ نہیں پہنچتا ، وہ ان سے منہ موڑ لیتے ہیں ، دیدے پھیر لیتے ہیں اور اپنی ظاہری شان و شوکت سے انہیں مرعوب کرنا چاہتے ہیں ۔ کہتے ہیں بتاؤ کس کے مکانات پرتکلف ہیں اور کس کی بیٹھکیں سجی ہوئی ہیں اور آباد اور بارونق ہیں ؟ پس ہم جو کہ مال و دولت ، شان و شوکت ، عزت و آبرو میں ان سے بڑھے ہوئے ہیں ، ہم اللہ کے پیارے ہیں ؟ یا یہ جو کہ چھپے پھرتے ہیں ؟ کھانے پینے کو نہیں پاتے ۔ کہیں ارقم بن ابو ارقم کے گھر چھپتے ہیں ، کہیں اور ، ادھر ادھر بھاگتے پھرتے ہیں ۔ جیسے اور آیت میں ہے ، کافروں نے کہا «لَوْ کَانَ خَیْرًا مَّا سَبَقُوْنَآ اِلَیْہِ وَاِذْ لَمْ یَہْتَدُوْا بِہٖ فَسَیَقُوْلُوْنَ ھٰذَآ اِفْکٌ قَدِیْمٌ» ۱؎ (46-الأحقاف:11) ’ اگر یہ دین بہتر ہوتا تو اسے پہلے ہم مانتے یا یہ ؟ ‘ نوح علیہ السلام کی قوم نے بھی یہی کہا تھا کہ «قَالُوا أَنُؤْمِنُ لَکَ وَاتَّبَعَکَ الْأَرْذَلُونَ» ۱؎ (26-الشعراء:111) ’ تیرے ماننے والے تو سب غریب محتاج لوگ ہیں ہم تیرے تابعدارنہیں بن سکتے ‘ ۔ اور آیت میں ہے کہ «وَکَذٰلِکَ فَتَنَّا بَعْضَہُم بِبَعْضٍ لِّیَقُولُوا أَہٰؤُلَاءِ مَنَّ اللہُ عَلَیْہِم مِّن بَیْنِنَا أَلَیْسَ اللہُ بِأَعْلَمَ بِالشَّاکِرِینَ» ۱؎ (6-الأنعام:53) ’ اسی طرح انہیں دھوکہ لگ رہا ہے اور کہہ اٹھتے ہیں کہ کیا یہی وہ اللہ کے پیارے بندے ہیں جنہیں اللہ نے ہم پر فضیلت دی ہے ؟ ‘ پھر ان کے اس مغالطے کا جواب دیا کہ ’ ان سے پہلے ان سے بھی ظاہر داری میں بڑھے ہوئے اور مالداری میں آگے نکلے ہوئے لوگ تھے لیکن ان کی بداعمالیوں کی وجہ سے ہم نے انہیں تہس نہس کر دیا ‘ ۔ ان کی مجلسیں ، ان کے مکانات ، ان کی قوتیں ، ان کی مالداریاں ان سے سوا تھیں ۔ شان و شوکت میں ، ٹیپ ٹاپ میں ، تکلفات میں ، امارت اور شرافت میں ان سے کہیں زیادہ تھے ۔ ’ ان کے تکبر اور عناد کی وجہ سے ہم نے ان کا بھس اڑا دیا ۔ غارت اور برباد کر دیا ۔ فرعونیوں کو دیکھ لو ، ان کے باغات ، ان کی نہریں ، ان کی کھیتیاں ، ان کے شاندار مکانات اور عالیشان محلات اب تک موجود ہیں اور وہ غارت کر دیے گئے مچھلیوں کا لقمہ بن گئے ‘ ۔ ”مقام“ سے مراد مسکن اور نعمتیں ہیں ۔ ”ندی“ سے مراد مجلسیں اور بیٹھکیں ہیں ۔ عرب میں بیٹھکوں اور لوگوں کے جمع ہونے کی جگہوں کو نادی اور ندی کہتے ہیں ۔ جیسے آیت «وَتَأْتُونَ فِی نَادِیکُمُ الْمُنکَرَ» ۱؎ (29-العنکبوت:29) میں ہے ۔ یہی ان مشرکین کا قول تھا کہ ہم بہ اعتبار دنیا تم سے بہت بڑھے ہوئے ہیں ، لباس میں ، مال میں ، متاع میں ، صورت شکل میں ہم تم سے افضل ہیں ۔