فَنَادَاهَا مِن تَحْتِهَا أَلَّا تَحْزَنِي قَدْ جَعَلَ رَبُّكِ تَحْتَكِ سَرِيًّا
تو فرشتے نے اس کی نچلی جانب سے پکارا (١٢) کہ تم غم نہ کرو، تمہارے رب نے تمہارے نیچے کی جانب ایک چشمہ جاری کردیا ہے۔
مریم علیہا السلام اور معجزات «مِنْ تَحْتِہَا» کی دوسری قرأت «مِنْ تَحْتَہَا» بھی ہے ۔ یہ خطاب کرنے والے جبرائیل علیہ السلام تھے ۔ عیسیٰ علیہ السلام کا تو پہلا کلام وہی تھا جو آپ نے اپنی والدہ کی برأت و پاکدامنی میں لوگوں کے سامنے کیا تھا ۔ اس وادی کے نیچے کے کنارے سے اس گھبراہٹ اور پریشانی کے عالم میں جبرائیل علیہ السلام نے یہ تشفی دی تھی ۔ یہ قول بھی کہا گیا ہے کہ یہ { بات عیسیٰ علیہ السلام نے ہی کہی تھی ۔ آواز آئی کہ غمگین نہ ہو تیرے قدموں تلے تیرے رب نے صاف شفاف شیریں پانی کا چشمہ جاری کر دیا ہے یہ پانی تم پی لو } ۔ ۱؎ (طبرانی کبیر:13303:ضعیف) ایک قول یہ ہے کہ اس چشمے سے مراد خود عیسیٰ علیہ السلام ہیں ۔ لیکن پہلا قول زیادہ ظاہر ہے ۔ چنانچہ اس پانی کے ذکر کے بعد ہی کھانے کا ذکر ہے کہ کھجور کے اس درخت کو ہلاؤ اس میں سے تروتازہ کھجوریں جھڑیں گی وہ کھاؤ ۔ کہتے ہیں یہ درخت سوکھا پڑا ہوا تھا اور یہ قول بھی ہے کہ پھل دار تھا ۔ بہ ظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت وہ درخت کھجوروں سے خالی تھا لیکن آپ کے ہلاتے ہی اس میں سے قدرت الٰہی سے کھجوریں جھڑنے لگیں ، کھانا پینا سب کچھ موجود ہو گیا اور اجازت بھی دے دی ۔ فرمایا کھا پی اور دل کو مسرور رکھ ۔ حضرت عمرو بن میمون رحمہ اللہ کا فرمان ہے کہ نفاس والی عورتوں کے لیے تر کھجوروں سے اور خشک کھجوروں سے بہتر اور کوئی چیز نہیں ۔ ایک حدیث میں ہے ، { کھجور کے درخت کا اکرام کرو ۔ یہ اسی مٹی سے پیدا ہوا ہے جس سے آدم علیہ السلام پیدا ہوئے تھے اس کے سوا اور کوئی درخت نر مادہ مل کر نہیں پھلتا ۔ عورتوں کو ولادت کے وقت تر کھجوریں کھلاؤ ، نہ ملیں تو خشک ہی سہی ۔ کوئی درخت اس سے بڑھ کر اللہ کے پاس مرتبے والا نہیں ۔ اسی لیے اس کے نیچے مریم علیہ السلام کو اتارا } ۔ ۱؎ (سلسلۃ احادیث ضعیفہ البانی:263،) یہ حدیث بالکل منکر ہے ۔ «تُسَاقِطْ» کی دوسری قرأت «تَسَّاقَطْ» اور «تُسْقِطْ» بھی ہے ۔ مطلب تمام قرأتوں کا ایک ہی ہے ۔ پھر ارشاد ہوا کہ ’ کسی سے بات نہ کرنا اشارے سے سمجھا دینا کہ میں آج روزے سے ہوں ‘ ۔ یا تو مراد یہ ہے کہ ان کے روزے میں کلام ممنوع تھا یا یہ کہ میں نے بولنے سے ہی روزہ رکھا ہے ۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہا کے پاس دو شخص آئے ، ایک نے تو سلام کیا ، دوسرے نے نہ کیا ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے پوچھا اس کی کیا وجہ ؟ لوگوں نے کہا اس نے قسم کھائی ہے کہ آج یہ کسی سے بات نہ کرے گا ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا اسے توڑ دے ، سلام کلام شروع کر ، یہ تو صرف مریم علیہا السلام کے لیے ہی تھا کیونکہ اللہ کو آپ کی صداقت وکرامت ثابت کرنا منظور تھی اس لیے اسے عذر بنا دیا تھا ۔ عبدالرحمٰن بن زید کہتے ہیں ، جب عیسیٰ علیہ السلام نے اپنی والدہ سے کہا کہ ” آپ گھبرائیں نہیں “ ، تو آپ رضی اللہ عنہا نے کہا میں کیسے نہ گھبراؤں ، خاوند والی میں نہیں ، کسی کی ملکیت کی لونڈی باندی میں نہیں ، مجھے دنیا نہ کہے گی کہ یہ بچہ کیسے ہوا ؟ میں لوگوں کے سامنے کیا جواب دے سکوں گی ؟ کون سا عذر پیش کر سکوں گی ؟ ہاے کاش کہ میں اس سے پہلے ہی مرگئی ہوتی ، کاش کہ میں ”نسیا منسیا “ ہو گئی ہوتی ۔ اس وقت عیسیٰ علیہ السلام نے کہا ، ” اماں آپ کو کسی سے بولنے کی ضرورت نہیں ۔ میں آپ ان سب سے نمٹ لوں گا ۔ آپ تو انہیں صرف یہ سمجھا دینا کہ آج سے آپ نے چپ رہنے کی نذر مان لی ہے “ ۔