سورة مريم - آیت 12

يَا يَحْيَىٰ خُذِ الْكِتَابَ بِقُوَّةٍ ۖ وَآتَيْنَاهُ الْحُكْمَ صَبِيًّا

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی

اے یحییٰ ! آپ تورات (٧) کو مضبوطی کے ساتھ تھام لیجئے اور ہم نے بچپن ہی سے ان کو فیصلہ کرنے کی صلاحیت دی تھی۔

ابن کثیر - حافظ عماد الدین ابوالفداء ابن کثیر صاحب

پیدائش یحییٰ علیہ السلام بمطابق بشارت الٰہی زکریا علیہ السلام کے ہاں یحییٰ علیہ السلام پیدا ہوئے ۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں تورات سکھا دی جو ان میں پڑھی جاتی تھی اور جس کے احکام نیک لوگ اور انبیاء علیہم السلام دوسروں کو بتلاتے تھے ۔ اس وقت ان کی عمر بچپن کی ہی تھی ، اسی لیے اپنی اس انوکھی نعمت کا بھی ذکر کیا کہ ’ بچہ بھی دیا اور اسے آسمانی کتاب کا عالم بھی بچپن سے ہی کر دیا اور حکم دے دیا کہ حرص ، اجتہاد ، کوشش اور قوت کے ساتھ کتاب اللہ سیکھ لے ۔ ساتھ ہی ہم نے اسے اسی کم عمری میں فہم وعلم ، قوت وعزم ، دانائی اور حلم عطا فرمایا ‘ ۔ نیکیوں کی طرف بچپن سے ہی جھک گئے اور کوشش وخلوص کے ساتھ اللہ کی عبادت اور مخلوق کی خدمت میں لگ گئے ۔ بچے آپ سے کھیلنے کو کہتے تھے مگر یہ جواب پاتے تھے کہ ہم کھیل کے لیے پیدا نہیں کئے گئے ۔ ’ یحییٰ علیہ السلام کا وجود زکریا علیہ السلام کے لیے ہماری رحمت کا کرشمہ تھا جس پر بجز ہمارے اور کوئی قادر نہیں ‘ ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے یہ بھی مروی ہے کہ ” واللہ میں نہیں جانتا کہ حنان کا مطلب کیا ہے ؟ “ لغت میں محبت ، شقفت ، رحمت وغیرہ کے معنی میں یہ آتا ہے ۔ بہ ظاہر یہ مطلب معلوم ہوتا ہے کہ ہم نے اسے بچپن سے ہی حکم دیا اور اسے شفقت ومحبت اور پاکیزگی عطا فرمائی ۔ مسند احمد کی ایک حدیث میں ہے کہ { ایک شخص جہنم میں ایک ہزار سال تک یا حنان یا منان پکارتا رہے گا } ۔ ۱؎ (مسند احمد:230/3:ضعیف جدا) پس ہر میل کچیل سے ، ہر گناہ اور معصیت سے آپ علیہ السلام بچے ہوئے تھے ۔ صرف نیک اعمال آپ علیہ السلام کی عمر کا خلاصہ تھا ۔ آپ علیہ السلام گناہوں سے اور اللہ کی نافرمانیوں سے یکسو تھے ۔ ساتھ ہی ماں باپ کے فرماں بردار ، اطاعت گزار اور ان کے ساتھ نیک سلوک تھے ، کبھی کسی بات میں ماں باپ کی مخالفت نہیں کی ، کبھی ان کے فرمان سے باہر نہیں ہوئے ، کبھی ان کی روک کے بعد کسی کام کو نہیں کیا ، کوئی سرکشی کوئی نافرمانی کی خو آپ علیہ السلام میں نہ تھی ۔ ان اوصاف جمیلہ اور خصائل حمیدہ کے بدلے تینوں حالتوں میں آپ علیہ السلام کو اللہ کی طرف سے امن و امان اور سلامتی ملی ۔ یعنی پیدائش والے دن ، موت والے دن اورحشر والے دن ۔ یہی تینوں جگہیں گھبراہٹ کی اور انجان ہوتی ہیں ۔ انسان ماں کے پیٹ سے نکلتے ہی ایک نئی دنیا دیکھتا ہے ، جو اس کی آج تک کی دنیا سے عظیم الشان اور بالکل مختلف ہوتی ہے ۔ موت والے دن اس مخلوق سے واسطہ پڑتا ہے جس سے حیات میں کبھی بھی واسطہ نہیں پڑا ، نہ انہیں کبھی دیکھا ۔ محشر والے دن بھی علی ہذا القیاس اپنے تئیں ایک بہت بڑے مجمع میں جو بالکل نئی چیز ہے ، دیکھ کر حیرت زدہ ہو جاتا ہے ۔ پس ان تینوں وقتوں میں اللہ کی طرف سے یحییٰ علیہ السلام کو سلامتی ملی ۔ ایک مرسل حدیث میں ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { تمام لوگ قیامت کے دن کچھ نہ کچھ گناہ لے کر جائیں گے سوائے یحییٰ علیہ السلام کے } } ۔ قتادہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ” آپ علیہ السلام نے گناہ تو کیا ، قصداً گناہ بھی کبھی نہیں کیا “ ۔ ۱؎ (مسند احمد:254/1:ضعیف) یہ حدیث مرفوعاً اور دو سندوں سے بھی مروی ہے لیکن وہ دونوں سندیں بھی ضغیف ہیں «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ حسن رحمہ اللہ فرماتے ہیں ، عیسیٰ ٰعلیہ السلام یحییٰ علیہ السلام سے فرمانے لگے ” آپ علیہ السلام میرے لیے استغفار کیجئے آپ علیہ السلام مجھ سے بہتر ہیں “ ۔ یحییٰ علیہ السلام نے جواب دیا ” آپ علیہ السلام مجھ سے بہتر ہیں “ ۔ عیسیٰ ٰعلیہ السلام نے فرمایا ” میں نے تو آپ علیہ السلام ہی اپنے اوپر سلام کہا اور آپ علیہ السلام پر خود اللہ نے سلام کہا “ ۔ اب ان دونوں نے ہی اللہ کی فضیلت ظاہر کی ۔