وَأَمَّا الْغُلَامُ فَكَانَ أَبَوَاهُ مُؤْمِنَيْنِ فَخَشِينَا أَن يُرْهِقَهُمَا طُغْيَانًا وَكُفْرًا
اور وہ لڑکا تو اس کے ماں باپ ایمان والے تھے میں ڈرا کہ وہ (بڑا ہوکر) اپنے کفر و سرکشی کا ان دونوں پر اثر ڈالے گا۔
اللہ کی رضا اور انسان پہلے بیان ہو چکا ہے کہ اس نوجوان کا نام جیسور تھا ۔ حدیث میں ہے کہ اس کی جبلت میں ہی کفر تھا ۔ (صحیح مسلم:2661) خضر علیہ السلام فرماتے ہیں کہ بہت ممکن تھا کہ اس بچے کی محبت اس کے ماں باپ کو بھی کفر کی طرف مائل کر دے ۔ حضرت قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں ، اس کی پیدائش سے اس کے ماں باپ بہت خوش ہوئے تھے اور اس کی ہلاکت سے وہ بہت غمگین ہوئے ، حالانکہ اس کی زندگی ان کے لیے ہلاکت تھی ۔ پس انسان کو چاہیئے کہ اللہ کی قضاء پر راضی رہے ۔ رب انجام کو جانتا ہے اور ہم اس سے غافل ہیں ۔ مومن جو کام اپنے لیے پسند کرتا ہے ، اس کی اپنی پسند سے وہ اچھا ہے جو اللہ اس کے لیے پسند فرماتا ہے ۔ صحیح حدیث میں ہے کہ مومن کے لیے جو اللہ کے فیصلے ہوتے ہیں ، وہ سراسر بہتری اور عمدگی والے ہی ہوتے ہیں ۔ (مسند احمد:117/3:صحیح) قرآن کریم میں ہے «وَعَسَیٰ أَن تَکْرَہُوا شَیْئًا وَہُوَ خَیْرٌ لَّکُمْ» ( 2-البقرہ : 216 ) یعنی بہت ممکن ہے کہ ایک کام تم اپنے لیے برا اور ضرر والا سمجھتے ہو اور وہی دراصل تمہارے لیے بھلا اور مفید ہو ۔ خضر علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ہم نے چاہا کہ اللہ انہیں ایسا بچہ دے جو بہت پرہیزگار ہو اور جس پر ماں باپ کو زیادہ پیار ہو ۔ یا یہ کہ جو ماں باپ کے ساتھ نیک سلوک کرتا ہو ۔ پہلے بیان ہو چکا ہے کہ اس لڑکے کے بدلے اللہ نے ان کے ہاں ایک لڑکی دی ۔ مروی ہے کہ اس بچے کے قتل کے وقت اس کی والدہ کے حمل سے ایک مسلمان لڑکا تھا اور وہ حاملہ تھیں ۔