أَمَّا السَّفِينَةُ فَكَانَتْ لِمَسَاكِينَ يَعْمَلُونَ فِي الْبَحْرِ فَأَرَدتُّ أَنْ أَعِيبَهَا وَكَانَ وَرَاءَهُم مَّلِكٌ يَأْخُذُ كُلَّ سَفِينَةٍ غَصْبًا
وہ کشتی (٥٠) کچھ غریب لوگوں کی تھی جو سمندر میں محنت مزدوری کرتے تھے، میں نے اس میں عیب پیدا کردینا چاہا، اس لیے کہ ان کے علاقے کے بعد ایک بادشاہ تھا جو ہر اچھی کشتی کو زبردستی لے لیتا تھا۔
اللہ کی مصلحتوں کی وضاحت بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان باتوں کے انجام سے خضر علیہ السلام کو مطلع کر دیا تھا اور انہیں جو حکم ملا تھا ، وہ انہوں نے کیا تھا ۔ موسیٰ علیہ السلام کو اس راز کا علم نہ تھا اس لیے بظاہر اسے خلاف سمجھ کر اس پر انکار کرتے تھے لہٰذا خضر علیہ السلام نے اب اصل معاملہ سمجھا دیا ۔ فرمایا کہ کشتی کو عیب دار کرنے میں تو یہ مصلحت تھی کہ اگر صحیح سالم ہوتی تو آگے چل کر ایک ظالم بادشاہ تھا جو ہر ایک اچھی کشتی کو ظلما چھین لیتا تھا ۔ جب اسے وہ ٹوٹی پھوٹی دیکھے گا تو چھوڑ دے گا ۔ اگر یہ ٹھیک ٹھاک اور ثابت ہوتی تو ساری کشتی ہی ان مسکینوں کے ہاتھ سے چھن جاتی اور ان کی روزی کمانے کا یہی ایک ذریعہ تھا جو بالکل جاتا رہتا ۔ مروی ہے کہ اس کشتی کے مالک چند یتیم بچے تھے ۔ ابن جریج کہتے ہیں اس بادشاہ کا نام حدوبن بدو تھا ۔ بخاری شریف کے حوالے سے یہ راویت پہلے گزر چکی ہے ۔ تورات میں ہے کہ یہ عیص بن اسحاق کی نسل سے تھا ، توراۃ میں جن بادشاہوں کا صریح ذکر ہے ان میں ایک یہ بھی ہے ، «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔