سورة الكهف - آیت 66

قَالَ لَهُ مُوسَىٰ هَلْ أَتَّبِعُكَ عَلَىٰ أَن تُعَلِّمَنِ مِمَّا عُلِّمْتَ رُشْدًا

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اس سے موسیٰ نے پوچھا کہ کیا میں آپ کے ساتھ چلوں (٣٩) تاکہ آپ مجھے رشد و ہدایت کی وہ باتیں سکھلائیں جو آپ کو سکھلائی گئی ہیں۔

ابن کثیر - حافظ عماد الدین ابوالفداء ابن کثیر صاحب

شوق تعلیم و تعلم یہاں اس گفتگو کا ذکر ہو رہا ہے جو موسیٰ علیہ السلام اور خضر علیہ السلام کے درمیان ہوئی تھی ۔ خضر اس علم کے ساتھ مخصوص کئے گئے تھے جو موسیٰ علیہ السلام کو نہ تھا ۔ اور موسیٰ علیہ السلام کے پاس وہ علم تھا جس سے خضر بے خبر تھے ۔ پس موسیٰ علیہ السلام ادب سے اور اس لیے کہ خضر کو مہربان کر لیں ، ان سے سوال کرتے ہیں ۔ شاگرد کو اسی طرح ادب کے ساتھ اپنے استاد سے دریافت کرنا چاہیئے ، پوچھتے ہیں کہ اگر اجازت ہو تو میں آپ کے ساتھ رہوں ، آپ کی خدمت کرتا رہوں اور آپ سے علم حاصل کروں جس سے مجھے نفع پہنچے اور میرے عمل نیک ہو جائیں ۔ خضر علیہ السلام اس کے جواب میں فرماتے ہیں کہ تم میرا ساتھ نہیں نبھا سکتے ، میرے کام آپ کو اپنے علم کے خلاف نظر آئیں گے ۔ میرا علم آپ کو نہیں اور آپ کو جو علم ہے ، وہ اللہ نے مجھے نہیں سکھایا ، پس میں اپنی ایک الگ خدمت پر مقرر ہوں اور آپ الگ خدمت پر ۔ ناممکن ہے کہ آپ اپنی معلومات کے خلاف میرے افعال دیکھیں اور پھر صبر کر سکیں ۔ اور واقعہ میں آپ اس حال میں معذور بھی ہیں ۔ کیونکہ باطنی حکمت اور مصلحت آپ کو معلوم نہیں اور مجھے اللہ تعالیٰ ان پر مطلع فرما دیا کرتا ہے ۔ اس پر موسیٰ علیہ السلام نے جواب دیا کہ آپ جو کچھ کریں گے ، میں اسے صبر سے برداشت کرتا رہوں گا ، کسی بات میں آپ کے خلاف نہ کروں گا ۔ پھر خضر نے ایک شرط پیش کی کہ اچھا کسی چیز کے بارے میں تم مجھ سے سوال نہ کرنا ، میں جو کہوں وہ سن لینا ، تم اپنی طرف سے کسی سوال کی ابتداء نہ کرنا ۔ ابن جریر رحمہ اللہ میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا قول ہے کہ موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ رب العالمین عز و جل سے سوال کیا کہ تجھے اپنے بندوں میں سے زیادہ پیارا کون ہے ؟ جواب ملا کہ جو ہر وقت میری یاد میں رہے اور مجھے نہ بھلائے ۔ پوچھا کہ تمام بندوں میں سے سب سے اچھا فیصلہ کرنے ولا کون ہے ؟ فرمایا جو حق کے ساتھ فیصلے کرے اور خواہش کے پیچھے نہ پڑے ۔ دریافت کیا کہ سب سے بڑا عالم کون ہے ؟ فرمایا وہ عالم جو زیادہ علم کی جستجو میں رہے ، ہر ایک سے سیکھتا رہے کہ ممکن ہے کوئی ہدایت کا کلمہ مل جائے اور ممکن ہے کوئی بات گمراہی سے نکلنے کی ہاتھ لگ جائے ۔ موسیٰ علیہ السلام نے پھر دریافت کیا کہ کیا زمین میں تیرا کوئی بندہ مجھ سے بھی زیادہ عالم ہے ؟ فرمایا ہاں ، پوچھا وہ کون ہے ؟ فرمایا خضر علیہ السلام ۔ فرمایا میں اسے کہاں تلاش کروں ؟ فرمایا دریا کے کنارے پتھر کے پاس جہاں سے مچھلی بھاگ کھڑی ہو ۔ پس موسیٰ علیہ السلام ان کی جستجو میں چلے ۔ پھر وہ ہوا جس کا ذکر قرآن کریم میں موجود ہے ۔ اسی پتھر کے پاس دونوں کی ملاقات ہوئی ۔ اس روایت میں یہ بھی ہے کہ سمندروں کے ملاپ کی جگہ جہاں سے زیادہ پانی کہیں بھی نہیں ، چڑیا نے چونچ میں پانی لیا تھا ۔