وَاضْرِبْ لَهُم مَّثَلَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا كَمَاءٍ أَنزَلْنَاهُ مِنَ السَّمَاءِ فَاخْتَلَطَ بِهِ نَبَاتُ الْأَرْضِ فَأَصْبَحَ هَشِيمًا تَذْرُوهُ الرِّيَاحُ ۗ وَكَانَ اللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ مُّقْتَدِرًا
اور آپ ان کے لیے دنیاوی زندگی (٢٢) کی مثال بیان کردیجئے کہ وہ اس پانی کے مانند ہے جسے ہم آسمان سے نازل کرتے ہیں، پس اس کیو جہ سے زمین کا پودا گھنا ہوجاتا ہے پھر وہ خشک ہو کر بھس بن جاتا ہے جسے ہوا اڑا کرلے جاتی ہے اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔
حیات و موت کا نقشہ دنیا اپنے زوال ، فنا ، خاتمے اور بردباری کے لحاظ سے مثل آسمانی بارش کے ہے جو زمین کے دانوں وغیرہ سے ملتی ہے اور ہزار ہا پودے لہلہانے لگتے ہیں ۔ تروتازگی اور زندگی کے آثار ہر چیز سے ظاہر ہونے لگتے ہیں لیکن کچھ دنوں کے گزرتے ہی وہ سوکھ ساکھ کر چورا چورا ہو جاتے ہیں اور ہوائیں انہیں دائیں بائیں اڑائے پھرتی ہیں ۔ اس حالت پر جو اللہ قادر تھا ، وہ اس حالت پر بھی قادر ہے ۔ عموماً دنیا کی مثال بارش سے بیان فرمائی جاتی ہے جیسے سورۃ یونس کی آیت «اِنَّمَا مَثَلُ الْحَیٰوۃِ الدٰنْیَا کَمَاءٍ اَنْزَلْنٰہُ مِنَ السَّمَاءِ فَاخْتَلَطَ بِہٖ نَبَاتُ الْاَرْضِ مِمَّا یَاْکُلُ النَّاسُ وَالْاَنْعَامُ» ( 10- یونس : 24 ) الخ میں اور جیسے سورۃ الزمر کی آیت «أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللہَ أَنزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَسَلَکَہُ یَنَابِیعَ فِی الْأَرْضِ ثُمَّ یُخْرِجُ بِہِ زَرْعًا مٰخْتَلِفًا أَلْوَانُہُ ثُمَّ یَہِیجُ فَتَرَاہُ مُصْفَرًّا ثُمَّ یَجْعَلُہُ حُطَامًا إِنَّ فِی ذٰلِکَ لَذِکْرَیٰ لِأُولِی الْأَلْبَابِ» (39-الزمر:21) الخ میں ۔ اور جیسے سورۃ الحدید کی آیت «اِعْلَمُوْٓا اَنَّمَا الْحَیٰوۃُ الدٰنْیَا لَعِبٌ وَّلَہْوٌ وَّزِیْنَۃٌ وَّتَفَاخُرٌ بَیْنَکُمْ وَتَکَاثُرٌ فِی الْاَمْوَالِ وَالْاَوْلَادِ کَمَثَلِ غَیْثٍ اَعْجَبَ الْکُفَّارَ نَبَاتُہٗ ثُمَّ یَہِیْجُ فَتَرٰیہُ مُصْفَرًّا ثُمَّ یَکُوْنُ حُطَامًا وَفِی الْاٰخِرَۃِ عَذَابٌ شَدِیْدٌ وَّمَغْفِرَۃٌ مِّنَ اللّٰہِ وَرِضْوَانٌ وَمَا الْحَیٰوۃُ الدٰنْیَآ اِلَّا مَتَاعُ الْغُرُوْرِ» ( 57- الحدید : 20 ) میں ۔ صحیح حدیث میں بھی ہے «الدٰنْیَا خَضِرَۃ حُلْوَۃ» دنیا سبز رنگ میٹھی ہے ، الخ ۔ (صحیح مسلم:2742) پھر فرماتا ہے کہ مال اور بیٹے دنیا کی زندگی کی زینت ہیں ۔ جیسے فرمایا ہے «زُیِّنَ لِلنَّاسِ حُبٰ الشَّہَوَاتِ مِنَ النِّسَاءِ وَالْبَنِینَ وَالْقَنَاطِیرِ الْمُقَنطَرَۃِ مِنَ الذَّہَبِ وَالْفِضَّۃِ وَالْخَیْلِ الْمُسَوَّمَۃِ وَالْأَنْعَامِ وَالْحَرْثِ ذٰلِکَ مَتَاعُ الْحَیَاۃِ الدٰنْیَا وَ اللہُ عِندَہُ حُسْنُ الْمَآبِ» ( 6-الانعام : 14 ) انسان کے لیے خواہشوں کی محبت مثلا عورتیں ، بیٹے ، خزانے وغیرہ مزین کر دی گئی ہے ۔ اور آیت میں ہے «اِنَّمَآ اَمْوَالُکُمْ وَاَوْلَادُکُمْ فِتْنَۃٌ وَاللّٰہُ عِنْدَہٗٓ اَجْرٌ عَظِیْمٌ» ( 64- التغابن : 15 ) الخ ، تمہارے مال ، تمہاری اولادیں فتنہ ہیں اور اللہ کے پاس اجر عظیم ہے ۔ یعنی اس کی طرف جھکنا اس کی عبادت میں مشغول رہنا دنیا طلبی سے بہتر ہے ۔ اسی لیے یہاں بھی ارشاد ہوتا ہے کہ باقیات صالحات ہر لحاظ سے عمدہ چیز ہے ۔ مثلا پانچوں وقت کی نمازیں اور ( دعا ) «سُبْحَان اللَّہ وَالْحَمْد لِلہِ وَلَا إِلَہ إِلَّا اللَّہ وَاَللَّہ أَکْبَر» ، اور ( دعا ) «لَا إِلَہ إِلَّا اللَّہ وَسُبْحَان اللَّہ وَالْحَمْد لِلہِ وَاَللَّہ أَکْبَر وَلَا حَوْل وَلَا قُوَّۃ إِلَّا بِاَللَّہِ الْعَلِیّ الْعَظِیم» ۔ مسند احمد میں ہے کہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہما کے غلام فرماتے ہیں کہ عثمان رضی اللہ عنہما ایک مرتبہ اپنے ساتھیوں میں بیٹھے ہوئے تھے جو مؤذن پہنچا ۔ آپ رضی اللہ عنہما نے پانی منگوایا ، ایک برتن میں قریب تین پاؤ کے پانی آیا ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے وضو کر کے فرمایا ، حضور علیہ السلام نے اسی طرح وضو کر کے فرمایا جو میرے اس وضو جیسا وضو کر کے ظہر کی نماز ادا کرے تو صبح سے لے کر ظہر تک کے سب گناہ معاف ہو جاتے ہیں ۔ پھر عصر میں بھی اسی طرح نماز پڑھ لی تو ظہر سے عصر تک کے تمام گناہ معاف ، پھر مغرب کی نماز پڑھی تو عصر سے مغرب تک کے گناہ معاف ۔ پھر عشاء کی نماز پڑھی تو مغرب سے عشاء تک کے گناہ معاف پھر رات کو وہ سو رہا ، صبح اٹھ کر نماز فجر ادا کی تو عشاء سے لے کے صبح تک کے گناہ معاف ۔ یہی وہ نیکیاں ہیں جو برائیوں کو دور کر دیتی ہیں ۔ لوگوں نے پوچھا یہ تو ہوئیں نیکیاں ، اب اے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہما آپ بتلائیے کہ باقیات صالحات کیا ہیں ؟ آپ رضی اللہ عنہما نے فرمایا دعا «سُبْحَان اللَّہ وَالْحَمْد لِلہِ وَاَللَّہ أَکْبَر وَلَا حَوْل وَلَا قُوَّۃ إِلَّا بِاَللَّہِ الْعَلِیّ الْعَظِیم» ۔ (مسند احمد:71/1:صحیح) حضرت سعید بن مسیب رحمہ اللہ فرماتے ہیں ، باقیات صالحات یہ ہیں دعا «سُبْحَان اللَّہ وَالْحَمْد لِلہِ وَاَللَّہ أَکْبَر وَلَا حَوْل وَلَا قُوَّۃ إِلَّا بِاَللَّہِ الْعَلِیّ الْعَظِیم» ۔ حضرت سعید بن مسیب رحمہ اللہ نے اپنے شاگرد عمارہ رحمہ اللہ سے پوچھا کہ بتاؤ باقیات صالحات کیا ہیں ؟ انہوں نے جواب دیا کہ نماز اور روزہ ۔ آپ رحمہ اللہ نے فرمایا تم نے صحیح جواب نہیں دیا ، انہوں نے کہا زکوٰۃ اور حج ، فرمایا ابھی جواب ٹھیک نہیں ہوا ۔ سنو وہ پانچ کلمے ہیں دعا «لَا إِلَہ إِلَّا اللَّہ وَسُبْحَان اللَّہ وَالْحَمْد لِلہِ وَاَللَّہ أَکْبَر وَلَا حَوْل وَلَا قُوَّۃ إِلَّا بِاَللَّہِ» ۔ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے سوال ہوا تو آپ نے بجز «الحمدللہ» کے اور چار کلمات بتلائے ۔ حضرت مجاہد رحمہ اللہ بجز «لا حول» کے اور چاروں کلمات بتلاتے ہیں ۔ حضرت حسن رحمہ اللہ اور قتادۃ رحمہ اللہ بھی ان ہی چاروں کلمات کو باقیات صالحات بتلاتے ہیں ۔ ابن جریر رحمہ اللہ فرماتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا «سُبْحَان اللَّہ وَالْحَمْد لِلہِ وَلَا إِلَہ إِلَّا اللَّہ وَاَللَّہ أَکْبَر» یہ ہیں باقیات صالحات ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:23100) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ، باقیات صالحات کی کثرت کرو ، پوچھا گیا وہ کیا ہیں ؟ فرمایا ملت ، پوچھا گیا وہ کیا ہے یا رسول اللہ ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تکبیر تہلیل ، تسبیح اور «الحمد للہ» اور «لَا حَوْل وَلَا قُوَّۃ إِلَّا بِاَللَّہِ» (تفسیر ابن جریر الطبری:32102:ضعیف) ۔ حضرت سالم بن عبداللہ رحمہ اللہ کے مولی عبداللہ بن عبدالرحمٰن کہتے ہیں کہ مجھے سالم رحمہ اللہ نے محمد بن کعب قرظی رحمہ اللہ کے پاس کسی کام کے لیے بھیجا تو انہوں نے کہا سالم رحمہ اللہ سے کہہ دینا کہ فلاں قبر کے پاس کے کونے میں مجھ سے ملاقات کریں ، مجھے ان سے کچھ کام ہے ۔ چنانچہ دونوں کی وہاں ملاقات ہوئی سلام علیک ہوا تو سالم رحمہ اللہ نے پوچھا ، کچھ کے نزدیک باقیات صالحات کیا ہیں ؟ انہوں نے فرمایا دعا «لَا إِلَہ إِلَّا اللَّہ وَاَللَّہ أَکْبَر» اور «سبحان اللہ» اور «لَا حَوْل وَلَا قُوَّۃ إِلَّا بِاَللَّہِ» ۔ سالم نے کہا یہ آخری کلمہ آپ رحمہ اللہ نے اس میں کب سے بڑھایا ؟ قرظی نے کہا میں تو ہمیشہ سے اس کلمے کو شمار کرتا ہوں ، دو تین بار یہی سوال جواب ہوا تو محمد بن کعب نے فرمایا ، کیا تمہیں اس کلمے سے انکار ہے ؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہاں انکار ہے ۔ کہا ، سنو میں نے سیدنا ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے سنا ہے انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ آپصلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے ، جب مجھے معراج کرائی گئی میں نے آسمان پر ابراہیم علیہ السلام کو دیکھا ، آپ علیہ السلام نے جبرائیل علیہ السلام سے پوچھا کہ یہ آپ کے ساتھ کون ہیں ؟ جبرائیل علیہ السلام نے جواب دیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ۔ انہوں نے مجھے مرحبا اور خوش آمدید کہا اور فرمایا آپ اپنی امت سے فرما دیجئیے کہ وہ جنت میں اپنے لیے بہت کچھ باغات لگا لیں ، اس کی مٹی پاک ہے ، اس کی زمین کشادہ ہے ۔ میں نے پوچھا ، وہاں باغات لگانے کی کیا صورت ہے ؟ فرمایا «لَا حَوْل وَلَا قُوَّۃ إِلَّا بِاَللَّہِ» بکثرت پڑھیں ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:23099:ضعیف) مسند احمد میں نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک رات عشاء کی نماز کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس آئے آسمان کی طرف دیکھ کر نظریں نیچی کر لیں ، ہمیں خیال ہوا کہ شاید آسمان میں کوئی نئی بات ہوئی ہے ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، میرے بعد جھوٹ بولنے اور ظلم کرنے والے بادشاہ ہوں گے جو ان کے جھوٹ کو تسلیم کرے اور ان کے ظلم میں ان کی طرفداری کرے ، وہ مجھ سے نہیں اور نہ میں اس کا ہوں ۔ اور جو ان کے جھوٹ کو نہ بچائے اور ان کے ظلم میں ان کی طرفداری کرے ، وہ مجھ سے نہیں اور نہ میں اس کا ہوں ۔ اور جو ان کے جھوٹ کو نہ بچائے اور ان کے ظلم میں ان کی طرفداری نہ کرے وہ میرا ہے اور میں اس کا ہوں ۔ لوگو سن رکھو «سُبْحَان اللَّہ وَالْحَمْد لِلہِ وَلَا إِلَہ إِلَّا اللَّہ وَاَللَّہ أَکْبَر» یہ باقیات صالحات یعنی باقی رہنے والی نیکیاں ہیں ۔ (مسند احمد:267/4:ضعیف) مسند میں ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا واہ واہ پانچ کلمات ہیں اور نیکی کی ترازو میں بے حد وزنی ہیں «لَا إِلَہ إِلَّا اللَّہ وَاَللَّہ أَکْبَر سُبْحَان اللَّہ وَالْحَمْد لِلہِ» اور وہ بچہ جس کے انتقال پر اس کا باپ طلب اجر کے لیے صبر کرے ۔ واہ واہ پانچ چیزیں ہیں ، جو ان کا یقین رکھتا ہو اللہ سے ملاقات کرے ، وہ قطعا جنتی ہے ۔ اللہ پر ، قیامت کے دن پر ، جنت دوزخ پر ، مرنے کے بعد کے جی اٹھنے پر اور حساب پر ایمان رکھے ۔ (مسند احمد:443/3:حسن) مسند احمد میں ہے کہ سیدنا شداد بن اوس رضی اللہ عنہا ایک سفر میں تھے کسی جگہ اترے اور اپنے غلام سے فرمایا کہ چھری لاؤ کھیلیں ۔ حضرت حسان بن عطیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں ، میں نے اس وقت کہا کہ یہ آپ رضی اللہ عنہ نے کیا کہا ؟ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ، واقعی میں نے غلطی کی ۔ سنو اسلام لانے کے بعد سے لے کر آج تک میں نے کوئی کلمہ اپنی زبان سے ایسا نہیں نکالا جو میرے لیے لگام بن جائے ، بجز اس ایک کلمے کے ، پس تم لوگ اسے یاد سے بھلا دو اور اب جو میں کہہ رہا ہوں اسے یاد رکھو ۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ جب لوگ سونے چاندی کے جمع کرنے میں لگ جائیں ، تم اس وقت ان کلمات کو بکثرت پڑھا کرو ۔ دعا « اللہُمَّ إِنِّی أَسْأَلک الثَّبَات فِی الْأَمْر وَالْعَزِیمَۃ عَلَی الرٰشْد وَأَسْأَلک شُکْر نِعْمَتک وَأَسْأَلک حُسْن عِبَادَتک وَأَسْأَلک قَلْبًا سَلِیمًا وَأَسْأَلک لِسَانًا صَادِقًا وَأَسْأَلک مِنْ خَیْر مَا تَعْلَم وَأَعُوذ بِک مِنْ شَرّ مَا تَعْلَم وَأَسْتَغْفِرک لِمَا تَعْلَم إِنَّک أَنْتَ عَلَّام الْغُیُوب» یعنی اے اللہ میں تجھ سے اپنے کام کی ثابت قدمی اور نیکی کے کام کا پورا قصد اور تیری نعمتوں کی شکر گزاری کی توفیق طلب کرتا ہوں اور تجھ سے دعا ہے کہ تو مجھے سلامتی والا دل اور سچی زبان عطا فرما ، تیرے علم میں جو بھلائی ہے میں اس کا خواستگار ہوں اور تیرے علم میں جو برائی ہے ، میں اس سے تیری پناہ چاہتا ہوں ، پروردگار ہر اس برائی سے میری توبہ ہے جو تیرے علم میں ہو ، بیشک غیب داں صرف تو ہی ہے ۔ سیدنا سعید بن جنادہ رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ اہل طائف میں سے سب سے پہلے میں نبی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا ، میں اپنے گھر سے صبح ہی صبح چل کھڑا ہوا اور عصر کے وقت منی میں پہنچ گیا ، پہاڑ پر چڑھا ، پھر اترا ، پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچا ، اسلام قبول کیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے سورۃ «قُلْ ہُوَ اللَّہ أَحَد» اور سورۃ «إِذَا زُلْزِلَتْ» سکھائی اور یہ کلمات تعلیم فرمائے ۔ ( دعا ) «سُبْحَان اللَّہ وَالْحَمْد لِلہِ وَلَا إِلَہ إِلَّا اللَّہ وَاَللَّہ أَکْبَر» ۔ فرمایا یہ ہیں باقی رہنے والی نیکیاں ۔ (طبرانی کبیر:5482:ضعیف) اس سند سے مروی ہے کہ جو شخص رات کو اٹھے ، وضو کرے ، کلی کرے پھر سو سو بار «سُبْحَان اللَّہ وَالْحَمْد لِلہِ وَلَا إِلَہ إِلَّا اللَّہ وَاَللَّہ أَکْبَر» پڑھے اس کے سب گناہ معاف ہو جاتے ہیں ، بجز قتل و خون کے کہ وہ معاف نہیں ہوتا ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہا فرماتے ہیں ، باقیات صالحات ذکر اللہ ہے اور «لَا إِلَہ إِلَّا اللَّہ وَاَللَّہ أَکْبَر وَسُبْحَان اللَّہ وَالْحَمْد لِلہِ وَتَبَارَکَ اللَّہ وَلَا حَوْل وَلَا قُوَّۃ إِلَّا بِاَللَّہِ وَأَسْتَغْفِر اللَّہ وَصَلَّی اللَّہ عَلَی رَسُول اللَّہ» ہے اور روزہ ، نماز ، حج ، صدقہ ، غلاموں کی آزادی ، جہاد ، صلہ رحمی اور کل نیکیاں یہ سب باقیات صالحات ہیں جن کا ثواب جنت والوں کو جب تک آسمان و زمین ہیں ، ملتا رہتا ہے ۔ فرماتے ہیں پاکیزہ کلام بھی اسی میں داخل ہے ۔ عبدالرحمٰن رحمہ اللہ فرماتے ہیں کل اعمال صالحہ اسی میں داخل ہیں ۔ امام ابن جریر رحمہ اللہ بھی اسے مختار بتلاتے ہیں ۔