وَيُنذِرَ الَّذِينَ قَالُوا اتَّخَذَ اللَّهُ وَلَدًا
اور ان لوگوں کو ڈرائے جو کہتے ہیں کہ اللہ نے اپنی اولاد بنائی ہے۔
مشرکین کے سوالات بے علمی اور جہالت کے ساتھ منہ سے بول پڑتے ہیں ۔ یہ تو یہ ، ان کے بڑے بھی ایسی باتیں بےعلمی سے کہتے رہے ۔ «کَلِمَۃً» کا نصب تمیز کی بنا پر ہے ، تقدیر عبارت اس طرح ہے «کَبُرَتْ کَلِمَۃ ھٰذِہِ کَلِمَۃً» اور کہا گیا ہے کہ یہ تعجب کے طور پر ہے ۔ تقدیر عبارت یہ ہے «اَعْظِمْ بِکَلِمتِہِمُ کَلِمَۃً» جیسے کہا جاتا ہے «اَکْرِمُ بِذَیْدٍ رَجُلًا» بعض بصریوں کا یہی قول ہے ۔ مکہ کے بعض قاریوں نے اسے کلمتہ پڑھا ہے جیسے کہا جاتا ہے «عَظُمَ قَوْلُکَ وَکَبُرَ شَانُکَ» جمہور کی قرأت پر تو معنی بالکل ظاہر ہیں کہ ان کے اس کلمے کی برائی اور اس کا نہایت ہی برا ہونا بیان ہو رہا ہے جو محض بے دل یل ہے ، صرف کذب و افترا ہے ۔ اسی لیے فرمایا کہ محض جھوٹ بکتے ہیں ۔ اس سورت کا شان نزول یہ بیان کیا گیا ہے کہ قریشیوں نے نضر بن حارث اور عقبہ بن ابو محیط کو مدینے کے یہودی علماء کے پاس بھیجا کہ تم جا کر محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی بابت کل حالات ان سے بیان کرو ۔ ان کے پاس اگلے انبیاء کا علم ہے ، ان سے پوچھو ان کی آپ کی بابت کیا رائے ہے ؟ یہ دونوں مدینے گئے احبار مدینہ سے ملے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات و اوصاف بیان کئے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کا ذکر کیا اور کہا کہ تم ذی علم ہو بتاؤ ان کی نسبت کیا خیال ہے ؟ انہوں نے کہا دیکھو ہم تمہیں ایک فیصلہ کن بات بتاتے ہیں تم جا کر ان سے تین سوالات کرو ، اگر جواب دے دیں تو ان کے سچے ہونے میں کچھ شک نہیں ، بیشک وہ اللہ کے نبی اور رسول ہیں اور اگر جواب نہ دیں سکیں تو آپ کے جھوٹا ہونے میں بھی کوئی شک نہیں پھر جو تم چاہو کرو ۔ ان سے پوچھو اگلے زمانے میں جو نوجوان چلے گئے تھے ان کا واقعہ بیان کرو ۔ وہ ایک عجیب واقعہ ہے ۔ اور اس شخص کے حالات دریافت کرو جس نے تمام زمین کا گشت لگایا تھا ، مشرق مغرب ہو آیا تھا ۔ اور روح کی ماہیت دریافت کرو ۔ اگر بتا دے تو اسے نبی مان کر اس کی اتباع کرو اور اگر نہ بتا سکے تو وہ شخص جھوٹا ہے جو چاہو کرو ۔ یہ دونوں وہاں سے واپس آئے اور قریشیوں سے کہا ، لو بھئی آخری اور انتہائی فیصلے کی بات انہوں نے بتا دی ہے ۔ اب چلو صلی اللہ علیہ وسلم سے سوالات کریں چنانچہ یہ سب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور تینوں سوالات کئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم کل آؤ میں تمہیں جواب دوں گا لیکن ان شاءاللہ کہنا بھول گئے ، پندرہ دن گزر گئے نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی آئی نہ اللہ کی طرف سے ان باتوں کا جواب معلوم کرایا گیا ۔ اہل مکہ جوش میں آ گئے اور کہنے لگے کہ لیجئے صاحب کل کا وعدہ تھا ، آج پندرھواں دن ہے لیکن وہ بتا نہیں سکے ۔ ادھر آپ کو دوہرا غم ستانے لگا ، قریشیوں کو جواب نہ ملنے پر ان کی باتیں سننے کا اور وحی کے بند ہو جانے کا ۔ پھر جبرائیل علیہ السلام آئے سورۃ الکہف نازل ہوئی ۔ اسی میں ان شاءاللہ نہ کہنے پر آپ کو ڈانٹا گیا ، ان نوجوانوں کا قصہ بیان کیا گیا اور اس سیاح کا ذکر کیا گیا اور «وَیَسْأَلُونَکَ عَنِ الرٰوحِ قُلِ الرٰوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّی وَمَا أُوتِیتُم مِّنَ الْعِلْمِ إِلَّا قَلِیلًا» ( 17- الإسراء : 85 ) میں روح کی بابت جواب دیا گیا ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:22861)